سیاست و حکومت قومی جائیداد ہے، وارث عوام ہیں
خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور دوسرے کئی وزراء کے بھائی اور قریبی رشتہ دار ناظم بن گئے ہیں۔ امیر مقام کا بیٹا بھی ناظم بن گیا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی بیٹے بیٹیاں بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہی ان کی کوالی فیکیشن ہے ورنہ وہ نالائقوں کے کپتان ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں کہ پورے پانچ سال میںایک دفعہ بھی نہیں بولے۔ ماشاللہ آج ہماری کالم نگار طیبہ ضیا نے اپنے کالم کا عنوان ماشااللہ اور مارشل لا رکھا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
… موروثی سیاست یا خاندانی سیاست کا رونا کیوں رویا جاتا ہے۔
نواز شریف کے دونوں بیٹے سیاست سے باہر ہیں۔ مریم نواز کے لیے میری رائے یہ ہے کہ وہ ایک اہل خاتون ہے۔ اس کے لئے سنا ہے کہ محکمہ اطلاعات کی نگرانی وہی کر رہی ہیں تو پھر پرویز رشید کیا کر رہے ہیں؟ پرویز رشید میں کچھ خوبیاں ہیں جو کسی سیاستدان میں نہیں ہیں۔ پروٹوکول اور سکیورٹی کے معاملے میں وہ بہت بے نیاز اور عوامی سے تھے۔ میرے پاس ایک ٹی وی انٹرویو کے لئے خود سوزوکی ڈرائیو کرتے ہوئے آ گئے۔ یہ بات مجھے بھولتی نہیں۔ میں کئی بار اس کا تذکرہ کر چکا ہوں۔ مگر وہ زود رنج ہیں۔ ایسے لوگ بھی جینوئن اور دوستانہ تنقیدی بات برداشت نہیں کرتے۔ اس طرح آدمی اپنے آپ پر اعتماد ہی نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف تنقید کو قبول کرتے ہوئے عوامی فیصلہ آنے سے پہلے مریم نواز نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ بات کچھ کریڈٹ کی تو ہے مگر ہم مریم نواز کے لیے خاندانی سیاست کے حوالے س اسے مورد الزام ٹھہرائیں تو یہ مناسب بات نہیں ہے۔
دنیا میں ہر شعبے میں مورثیت کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔ غریب کا بیٹا بالعموم غریب ہی رہتا ہے اور امیر کا بیٹا تو ہوتا ہی امیر ہے۔ یہ ایک قدرتی بات ہے۔ ہم اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتے۔ غربت کو ختم کرنا سیاستدانوں کا کام ہے اور ہمارے ہاں کوئی سیاستدان ایسا نہیں کر سکا۔ یہ لوگ ارب پتی ہو گئے اور غریب کے گھر میں چائے کی پتی بھی نہیں ہوتی۔
ہم بے نظیر بھٹو کو عالمی لیڈر مانتے ہیں۔ شہید بی بی نے سیاست کے راستے پر جان دے دی۔ دو دفعہ وزیراعظم بنی۔ جبکہ امریکہ جیسے آزاد خیال ملک میں کبھی کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی۔ اب ہیلری کلنٹن کے لیے بہت امید ہے۔ خود میری اپنی خواہش ہے کہ وہ صدر بن جائے۔ شاید وہ صدر بن جائے تو اس لئے کہ وہ سابق صدر کلنٹن کی بیوی ہے۔ مگر اس نے امریکی وزیر خارجہ کے طور پر اپنی اہلیت کو ثابت کیا ہے۔ پاکستان دشمنی اس کی ایک مثال ہے۔ وہ کسی مرد صدر سے مختلف نہ ہو گی۔ تو یہ خاندانی سیاست نہیں ہے؟ مجھے یہ بھی خواہش تھی کہ صدر ابامہ کی بجائے وہ صدر امریکہ ہوتی۔ ابامہ بھی ایک مثال ہے کہ وہ کالا ہے۔ ہیلری بھی ایک مثال ہو گی کہ وہ عورت ہے۔ فرق یہ ہے کہ کبھی مشعل ابامہ صدر امریکہ نہیں بن سکے گی۔ اگر وہ کسی طرح وائٹ ہائوس پر قبضہ کر لے تو ہم کہیں گے کہ یہ خاندانی سیاست ہے۔ خاندانی سیاست امریکہ میں بھی ہے مگر وہاں کوئی نااہل ہو گا تو وہ کبھی کانگریس یا سینٹ کا ممبر نہیں بن سکے گا۔ مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اگر کوئی اہل ہے تو وہ جس طرح کسی کا بیٹا بیٹی ہے کہ آئے اور اپنے آپ کو ثابت کرے۔ مگر زرداری صاحب کا صدر پاکستان بن جانا صرف اس لیے ممکن ہوا کہ وہ بی بی شہید کا شوہر اور بھٹو کا داماد تھا۔ ہمارے جیالوں نے اسے مان لیا ورنہ کسی طرح بھی وہ اس منصب کے اہل نہ تھے۔ اب اس کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری میدان میں ہے۔ نجانے کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے کام کے ساتھ زرداری ہٹا دے۔ بلاول بھٹو کافی ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اسے پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنایا تو لوگوں نے اسے شریک چیئرمین مان لیا مگر جب اسے جان لیا کہ چکر کیا ہے اب اس کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔
ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور ڈاکیے کا بیٹا ڈاکیہ ہوتا ہے تو پھر کوئی کیا کر سکتا ہے مگر ہم جسے خاندانی سیاست کہتے ہیں وہاں اپنے آپ کو اہل ثابت کرنا ضروری ہے۔ ہم سیاسی زندگی میں کچھ اور ثابت کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان اس مقابلے میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ دوسروں سے زیادہ امیر کبیر بے ضیمر کیسے بن سکتے ہیں۔
کوئی مجھے بتائے کہ اسفند یار ولی خان کون ہے۔ مولانا فضل الرحمن کس کا بیٹا ہے؟ یہ لوگ کتنی بار ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔ مستقل ارکان پارلیمنٹ سے کوئی تو پوچھے کہ انہوں نے کیا معرکہ مارا ہے کوئی کام جو کسی وزیر شذیر یا سیاستدان حکمران نے کیا ہو، بیان کیا جائے۔ ان لوگوں نے بھی کچھ نہیں کیا جو کسی کے رشتہ دار نہیں ہیں تو پھر ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ اصل میں سارے ایک ہیں حکام بھی سارے کے سارے ایک جیسے اور عوام کا مقدر ہی نہیں بدلتا۔
ہمسایہ ملک بھارت میں اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور سونیا گاندھی کون ہے۔ ایک تو پنڈت نہرو کی اولاد ہیں اور پھر ان کے ساتھ گاندھی کا لفظ بھی لگا ہوا ہے۔ کرنل قذافی کا کتنا نام تھا مگر اس کے بیٹے نے اپنے باپ کا انجام کیا کر دکھایا۔ یہ بھی خاندانی سیاست کا شاخسانہ ہے؟ مگر سعودی عرب میں ایک بھائی کے بعد دوسرا بھائی تخت نشین ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی سازش نہ کوئی مشکل، یہ نظم و ضبط کیا ؟ ایک جملہ معترضہ عرض ہے کہ ہم نے جمہوری نظام سے کیا کیا ’’فائدے‘‘ اٹھائے ہیں؟ میں شاہی نظام کے حق میںنہیں ہوں مگر خاندانی سیاست کا ایک رنگ دکھا رہا ہوں۔ مغلوں نے کتنے برس حکمرانی کی مگر جب نارمل لوگوں تک یہ ورثہ پہنچا تو کیا ہوا۔؟
میرے خیال میں معیار اہلیت ہو۔ اس میں یہ دیکھنا اور تنقید برائے تنقید کرنا کہ یہ تو فلاں کا بیٹا بیٹی ہے۔ ؟ کچھ مناسب نہیں ہے مگر یہ بھی مناسب نہیں کہ کسی نا اہل کے حوالے یہ قومی جائیداد کر دی جائے۔
جائیداد تو باپ کی بیٹوں اور بیٹیوں کو ملتی ہے۔ بیٹے اپنی بہنوں کو اس حق سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ یہ بھی خاندانی سیاست ہے؟۔ مگر حکمرانی اور سیاست ایک قومی جائیداد ہے۔ اس کے وارث عوام ہیں۔