بھارت سے بہتر تعلقات‘ مشرف حکومت کشمیر پر قراردادیں پس پشت ڈالنے پرتیار تھی : امریکہ
واشنگٹن (این این آئی) امریکی محکمہ خارجہ کے جاری ہونے والے ایک خفیہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ مشرف حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے مئی 2000ءمیں کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالنے پر آمادہ ہو گئی تھی۔ پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے یہ مراسلہ 27 مئی 2000ءکو اُس وقت کے وزیر خارجہ عبدالستار اور امریکی نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور تھامس پکرنگ کے درمیان اسلام آباد میں ہوئی دو گھنٹوں پر مشتمل ون ٹوون ملاقات کے بعد واشنگٹن کو بھیجا تھا۔ مراسلے کے مطابق عبدالستار نے کشمیر سے آگے سوچنا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ لائن آف کنٹرول اور کشمیر کے اندر تشدد کم کرنے کی فوری ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ عبدالستار نے کہا کہ پاکستان ارادتاً 1940ءکی دہائی کی اقوام متحدہ قراردادوں کو پس پشت ڈال سکتا ہے کیونکہ ان پر زور دینا فائدہ مند نہیں 29 مئی کو بھیجے گئے ایک اور مراسلے میں پکرنگ کی چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف سے ملاقات کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ جن کے مطابق مشرف نے پکرنگ کو بتایا تھا کہ پاکستان کشمیر میں تشدد میں کمی اور مذاکرات کی بحالی کی حمایت کرتا ہے۔ مشرف نے کشمیر میں تشدد کم کرنے میں کردار ادا کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت کئی صفحات پر مشتمل ان مراسلوں کے مطابق 2000ءکے بعد سے کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ واضح رہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی بات چیت سے یہ مسئلہ حل کریں۔ مراسلوں میں کہا گیا کہ پکرنگ نے ملاقات کے دوران جنرل مشرف کو پاکستان امریکہ تعلقات میں حائل پانچ سنگین مسائل (کشمیر، افغانستان، جوہری عدم پھیلاو¿، جمہوریت اور معیشت) سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ وہ اپنی توجہ پہلے تین مسائل پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ پکرنگ نے خبردار کیا کہ کشمیر کا مسئلہ مستقبل قریب میں کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ جب تک لائن آف کنٹرول پر معاملات خراب رہیں گے اس وقت تک پورا خطہ خطرے میں رہے گا۔ یاد رہے امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان دورے کے موقع پر کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی عسکری حل نہیں اس معاملے پر آگے بڑھنے کا صرف ایک ہی راستہ مذاکرات ہیں۔ مراسلے کے مطابق پکرنگ نے مشرف پر واضح کیا کہ وہ صدر کلنٹن کے نقطہ پر ہی زور دینا چاہیں گے۔ انہوں نے مشرف کو بتایا کہ بھارتی حکام نے حریت کانفرنس کے کئی رہنماو¿ں کو رہا کرتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے اس سمت میں پہلا قدم رکھ دیا ہے۔ ہمارے خیال میں کشمیری رہنماو¿ں سے براہ راست بات چیت کی بھارتی پیشکش سے پاکستان کو ٹیکٹیکل نقصان پہنچا کیونکہ اس طرح اسلام آباد مذاکراتی عمل سے باہر ہو جائے گا تاہم اگر حکومت پاکستان چاہے تو وہ اس موقع سے فائدہ بھی اٹھا سکتی ہے۔اگر پاکستان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور کشمیر میں جہادی عناصر کم کرنے جیسے مناسب اقدامات کرے تو امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے دباو¿ ڈال سکے گا۔ مراسلے میں کہا گیا کہ پاکستانی وزیر خارجہ نے مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل کرنے کے آئیڈیا پر مثبت ردعمل دکھایا۔ مراسلے کے مطابق عبدالستار نے کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر حکومت پر زور دیا کہ اسلام آباد کی غیر موجودگی میں حریت رہنماو¿ں کی بھارتیوں سے براہ راست بات چیت ہونے دی جائے۔ عبدالستار نے کہا کہ کشمیریوں سے براہ راست بات چیت کامطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی اس معاملہ میں دلچسپی ختم ہو گئی۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے ایک ایسے حل میں دلچسپی ظاہر کی جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعلقات سے قربت ہو سکے۔ عبدالستار نے کہا کشمیری رہنما خود 1991ءمیں کہہ چکے ہیں کہ اس مسئلہ کے حل میں پہلا قدم انہیں شامل کیا جانا ہے۔ عبدالستار کے حوالے سے بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں کشمیری عوام اور ان کے خود حکومت کرنے جیسے معاملات پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے، دوسرے مرحلے میں علاقائی سرحدوں کے مسئلہ پر غور کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی ائیر لائن کی قندھار ہائی جیکنگ کے فوراً بعد پکرنگ نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی سے ملاقات میں کہا تھا کہ غیر ریاستی عناصر استعمال کرنے کی پاکستانی پالیسی امریکی مفادات کیلئے خطرناک ہے۔ پکرنگ نے خبردار کیا کہ ہائی جیکنگ امریکی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اس معاملہ سے اسی شدت کے ساتھ نمٹا جانا چاہیے۔ انہوں نے ملیحہ لودھی کو بتایاکہ کشمیر پر پاکستان کی پالیسی مضبوط نہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کو عالمی برادری سے مدد نہیں ملے گی۔
مشرف/ کشمیر