ریاست اور شہریوں میں خلیج کم کرنے کیلئے کرپشن ختم کرنا ہو گی : جسٹس جواد
اسلام آباد (ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ شہریوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنا ان پرریاست کاکوئی احسان نہےں بلکہ یہ شہریوں کا استحقاق ہے، جب عوام اپنے آئےنی حقوق سے محروم ہوتے ہےں تو مایوسی اور منافرت جنم لیتی ہے اور لا قانونیت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ ملک کا ہر شہری بلواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس دہندہ ہے حتیٰ کہ ایک نادار دہقان جب اپنی بچی کیلئے عید پر کپڑے یا جوتی خریدتا ہے تو ادا کردہ قیمت کا ایک حصہ ٹیکس مےں سرکار کو جاتا ہے، ایک کامیاب ریاست کیلئے لازم ہے کہ ریاست مےں موجود ہر فرد اور گروہ کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے ریاستی امور مےں جگہ مل سکے۔بدعنوانیوں کی روک تھام کے لئے قانون مےں ادارے موجود ہےں لیکن اُنکی کارکردگی کچھ ایسی نہےں کہ جس سے یہ تسلی ہو کہ بدعنوانی کا خاتمہ جلد ہوجائیگا جبکہ ہر شخص کی نظر مےں بد عنوانی ہی وہ ناسور ہے جو ریاست کی جڑےں کھوکھلی کر رہا ہے، اسی بد عنوانی کی وجہ سے پاکستان کو اربوں بلکہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، عوام مےں عدم مساوات انتہا تک پہنچ رہی ہے اور مفلس و نادار طبقے پسے چلے جا رہے ہےں جب کہ دولتمند حضرات مزید دولت مند ہوتے جا رہے ہےں۔ لا اینڈ جسٹس کمشن کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ زمینی حقائق قانون اور آئےن کی دنیا سے الگ نظر آ رہے ہوتے ہےں لیکن میرا احساس غالب ےہی رہاہے کہ ہم صحےح راستہ پر چل کراور نیک نیتی سے کوشش کے ذرےعے زمینی حقائق کو آئےن اور قانون کی منشاءاور تقاضوںسے قریب تر لاسکتے ہےں۔ ہمارے رےاستی اداروں مےں ملک کے عوام کو مو¿ثر طریقہ سے شامل کرنا نہایت ضروری ہے لیکن اس اعلیٰ مقصد کی ضرورت کا احساس ہوتے ہوئے بھی ہمارے سامنے ایک بڑا رخنہ جو حائل ہے وہ ہے: قانون اور آئےن کے اطلاق مےں کمزورےاں۔ کامیاب ریاست کےلئے ہر فرد کو شکایات کے ازالے کا موقع ملنا چاہئے، آئین عوام کے احساسات اور جذبات کا عکاس ہے، پولیس آرڈر2002ءکا صحیح معنوں میں اطلاق نہیں ہوسکا، ریاستی کارگزاری میں عوامی اُمنگوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ ریاست کا بنیادی اصول عوام الناس کی فلاح ہے لیکن یہاں پر ہر عمل کا محور ریاست ہے، عوام کا ذکر ہی نہیں آتا، ریاستی کارگزاری میں اکثر جگہ عوامی امنگوں کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا جاتا جبکہ آئین عوام کے احساسات کا عکاس ہے، کامیاب ریاست کےلئے ہر فرد کو شکایات کے ازالے کا موقع ملنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کا استحقاق اولین ترجیح ہونا چاہئے، ملک کے عوام ہی اصل مالک ہیں، ریاستی ادارے انکے ملازم ہیں، قوم کو اپنی اخلاقی اقدار اور معاشرتی انحطاط پر نظر ڈالنا ہوگی۔ ریاست کے ہر فرد، گروہ کو ریاستی امور میں جگہ ملنی چاہئے، عوام اور ریاست میں خلیج دور کرنے کیلئے اسباب جاننے کی ضرورت ہے، ریاستی کارگزاری میں اکثر عوامی احساسات کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، پاکستان میں احتساب کا نظام کمزور ہے، ہمیں نو آبادیاتی نظام کی ہر نشانی کو مٹانا ہوگا، ریاست اور شہریوں میں خلیج کم کرنے کیلئے کرپشن ختم کرنا ہوگی۔ عوام میں عدم مساوات انتہا کو پہنچ رہی ہے، لاقانونیت کی وجہ آئین سے انحراف ہے، ملک کو درپیش مسائل سے نجات کیلئے ریاست اور عوام میں فاصلے ختم کرنا ہوں گے، قائم مقام صدر رضا ربانی نے سیمینار سے خطاب میں کہا ہے کہ کرپشن ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ نیب کا قانون عیب زدہ ہے، نیب بطور ادارہ آزاد نہیں ہے، پولیس کو سیاست سے پاک کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے، پاکستان میں پولیس کو غیرسیاسی بنانے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو جواب دہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کئی مرتبہ ملک میں آئین معطل کیا گیا، ایمرجنسی نافذ کی گئی، عدالتی احکامات پر عملدرآمد انتظامیہ کا کام ہے، اداروں کو جمہوری انداز میں چلنا چاہئے، پولیس کی نظر میں عام شہری کی جان کی کوئی اہمیت نہیں، افسروں کی ترقیوں کیلئے پولیس مقابلوں کو معیار بنایا جاتا ہے۔ آئین کا احترام کئے بغیر قانون کی بالادستی ممکن نہیں۔ پارلیمنٹ ایمرجنسی اور مارشل لاءکی توثیق نہیں کر سکتی، ملکی تاریخ میں پہلی بار اعلیٰ عدلہی نے ایمرجنسی کی توثیق نہیں کی۔ ایل ایف او اور پی سی او کے ذریعے آئین کو پامال کیا گیا۔ پولیس اصلاحات پر کام کرنا ضروری ہے تاکہ وہ فعال ہو کر کام کر سکے۔ احتساب کا نظام ایسا ہونا چاہئے کہ کوئی ادارہ اپنے آپ کو مقدس گائے نہ سمجھے۔ رضا ربانی نے عوام کو انصاف کی فوری فراہمی کیلئے آئینی اداروں کے درمیان مکالمے کی تجوزی بھی دی۔ رضا ربانی نے کہا ہے کہ اداروں میں رابطوں کے فقدان کے باعث کئی ریاستی مسائل پیدا ہوئے جن سے شہری براہ راست متاثر ہوئے۔
جسٹس جواد