حجاب پاکیزگی اور آزادی کی توانا علامت ہے
آج چھ ستمبر ہے۔ یوم دفاع ہمارے لئے یوم اتحاد بن گیا۔ 4 ستمبر کو یوم حجاب تھا۔ نوائے وقت میں اس موقع پر بہت شاندار ایڈیشن شائع کیا گیا۔ میں1965 میں جوان تھا۔ اب بھی چھ ستمبر کے آس پاس میری جوانی بکھری رہتی ہے میں نے چادروں میں لپٹی ہوئی عورتوں کو مردانہ وار اپنے فوجی بھائیوں پر پھول نچھاور کرتے ہوئے جوش و جذبے کے ساتھ نعرے لگاتے ہوئے دیکھا۔ حجاب اور انقلاب آپس میں رل مل گئے تھے۔ بہادری، قربانی اور حب الوطنی کی راہوں پر کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔
آستانہ عالیہ چورہ شریف کے سجادہ نشین پیر کبیر علی شاہ نے جنرل مشرف کے زمانے میں چادر اوڑھ تحریک کا اعلان کیا اب تک ہزاروں چادریں خواتین میں تقسیم کی جا چکی ہیں یہ خیال بہت اچھا ہے کہ یہ برقعے کا زمانہ نہیں ہے۔ حجاب کا کام چادر سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ چادر عورت کو حجاب اور وقار دونوں عطا کرتی ہے۔ ’’چادر زہرا‘‘ کی شان مسلمانوں میں بہت اہم ہے۔
اس حوالے سے سابق رکن اسمبلی بہت بڑی مسلم سکالر اسلامی نظریاتی کونسل کی ممبر اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی بات بھی بہت بامعنی اور خوبصورت ہے۔ دوپٹہ، چادر اور برقعہ سب اصل حجاب ہیں۔ یورپی ملکوں میں سکارف بھی اس سلسلے میں اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ 6 ستمبر کو عالمی یوم حجاب کا آغاز سمیحہ بی بی کے والد مرحوم امیر جماعت اسلامی بہت کشادہ دل اور کھلے خیالات کے عالم دین قاضی حسین احمد نے کہا تھا وہ آزاد خیال لوگوں میں بھی بہت مقبول تھے۔ دین کی محبت اسی طرح پھیلائی جا سکتی ہے کہ دنیا کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ دین دنیا کی بھلائی اصل عشق رسولؐ ہے۔
میں ان کی محبت کی خوشبو آج بھی اپنے چاروں طرف بکھرتی نکھرتی ہوئی دیکھتا ہوں حجاب کی ابتدا تو مردوں سے ہوئی تھی۔ حجاب عورت کے لئے ضروری ہے تو مردوں کے لئے اس سے بڑھ کر ضروری ہے۔ ہمارے گھروں میں عورتوں کے لئے چادر لازمی تھی تو میں نے اپنے ابا کو گھر سے پگڑی کے بغیر نکلتے ہوئے کبھی نہ دیکھا تھا۔ میری اہلیہ رفعت خانم جب بھی میرے ساتھ کسی تقریب میں جائیں تو اپنے طور پر چادر لے کے جاتی ہیں۔ اس حوالے سے میں نے کبھی انہیں کچھ نہیں کہا۔ ایک دفعہ نامور ادیبہ اور آئیڈل خاتون بانو آپا سے کسی نے پوچھا کہ وہ چادر والی خاتون کون ہے تو انہوں نے کہا کہ حجاب کو بھی فیشن سمجھنے والی خاتون ڈاکٹر اجمل نیازی کی بیوی ہی ہو سکتی ہے۔
نوائے وقت میں شازیہ سعید نے بہت بامعنی اور جینوئن تحریر اس حوالے سے لکھی ہے ہم خواتین عبایا اور حجاب لیتی ہیں تو اس میں تھوڑا سا فیشن بھی شامل کر لیا کریں جو حجاب کی اہمیت کو ختم نہ کرتا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ عورتوں نے فیشن کیا ہوا ہو اور پردے کا خیال بھی رکھا ہو تو یہ نیکی ہے۔ یہ بھی طرز حجاب ہے جو طرز زیست کی ایک مثال ہے۔ میرے بابا جی بابا عرفان الحق نے فرمایا کہ محفل میں خوشبو لگا کر جانا نیکی ہے۔ خوشبو ایک خوشگوار اثر سب پر ڈالتی ہے جسے دیکھ کر لوگ خوش ہو جائیں اور اس خوشی کو مثبت طریقے سے محسوس کریں تو یہ نیکی نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے اپنے مضمون میں حدیث رسولؐ کے حوالے سے لکھا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ کوئی عورت ہے تو وہ اپنے ناخنوں کو مہندی لگا کے رکھے تاکہ مرد اور عورت کا فرق معلوم ہو سکے۔ پیر کبیر علی شاہ نے کہا ہے کہ ’’عورت کے سنورنے سے گھر سنورتے ہیں گھر کے سنورنے سے معاشرہ سنورتا ہے‘‘ عورت اور مرد کے جلال و جمال میں اضافے سے ایک اچھا اثر پڑتا ہے۔ بننا سنورنا عورت کا حق ہے مگر اسے ناحق کے طور پر استعمال کرنا مناسب نہیں۔ یہ مناسب ہے عورت اچھی لگے یہ ایک مثبت اور جینوئن بات ہے۔ پیر صاحب نے مرشدومحبوب ڈاکٹر مجید نظامی کی طرف سے سرپرستی کا بہت ذکر کیا۔ برادرم شاہد رشید کا بھی ذکر کیا کہ وہ نظامی صاحب کے راستے کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔ وہ عام طور پر یہ ذکر بھی کرتے ہیں۔ چادر اوڑھ تحریک کے لئے پہلا کالم محمد اجمل نیازی نے لکھا تھا۔ سارہ احسان نے لکھا کہ ’’دنیا بھر میں عورتوں کے اندر حجاب کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔
صحابیاتؓ یعنی عورتیں حضور کریمؐ کے پیچھے نماز پڑھتی تھیں۔ وہ گھروں کے باہر بھی ذمہ داریاںسرانجام دیتی تھیں۔ جنگوں کے دوران زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں جتنی عزت آپؐ نے عورت کو دی وہ ایک مثال ہے اور یہ بے مثال ہے۔ انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کو اپنی محسنہ کہا اور وہ خود محسن انسانیت ہیں۔
سال بھر میں کئی دن منائے جاتے ہیں۔ عالمی خواتین ڈے، ٹیچرز ڈے اور بچوں کا دن وغیرہ وغیرہ۔ 2004ء میں 4 ستمبر کا دن عالمی حجاب ڈے کے طور منانے کا آغاز قاضی حسین احمد نے کیا تھا اور اب ہر سال باقاعدگی کے ساتھ یہ دن پورے جذبے اور شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ پہلے دوپٹہ چادر اور برقعہ پسماندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ افتخار اور وقار کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ 5 فروری کو یوم کشمیر منانے کی روایت کا آغاز بھی قاضی صاحب نے کیا تھا۔ یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی کے قانون کی دھجیاں مسلمان عورتوں نے بکھیر دی ہیں۔ سکارف اور حجاب اب وہاں عورت کی دلیری دلبری پاکیزگی وقار اور معاشرے کی فلاح کا موجب سمجھا جانے لگا ہے۔ پاکستان میں قصور جیسے انسانیت سوز اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات شرمناک ہیں۔
حیا اور عفت کی بات حجاب کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حجاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ یہ عورت کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس طرح اپنی پاکیزگی اور حیا کی حفاظت کرتی ہے۔ معاشرے کو ماں کی محبت کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے تو ماں کے مقام کا احترام لازم ہے۔
ایک بڑے شادی ہال میں ایک عظیم الشان حجاب کانفرنس منعقد کی گئی جس کا عنوان یہ تجویز کیا گیا تھا ’’حجاب کی پاکیزگی اور آزادی کی توانا علامت ہے‘‘۔ یہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی کتاب کا نام بھی ہے۔ یہاں امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق بھی موجود تھے۔ انہوں نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، ڈاکٹر حمیرا طارق، آسیہ سرور، صائمہ اسما اور اوریا مقبول جان نے خطاب کیا۔ قاضی حسین احمد کی اہلیہ محترمہ نے دعا کروائی۔
عالمی حجاب ڈے کے حوالے سے ایک تقریب الحمرا میں بھی ہوئی۔ صدارت چادر اوڑھ تحریک کے مرکزی امیر پیر کبیر علی شاہ نے کی۔ مہمان خصوصی صدر رفیق تارڑ تھے۔ تارڑ صاحب نے کہا کہ حجاب عملی زندگی میں رکاوٹ نہیں مددگار ہے۔ اسلام خواتین کے حقوق کا حقیقی محافظ ہے۔ سجاد میر، نوید چودھری، چودھری خادم حسین اور قیوم نظامی نے زبردست تقریریں کیں۔ کمپیئرنگ کے فرائض ممتاز اور تخلیقی صلاحیتوں والے نوجوان ادیب و شاعر نواز کھرل نے سرانجام دئیے۔ اپنے بھرپور اور ولولہ انگیز جملوں کے لئے حاضرین سے کھل کر داد لی۔ نواز میرا عزیز ہے مگر میں اسے بندہ نواز کہتا ہوں۔ وہ اپنی خوبصورت کمپیئرنگ سے محفل کو گرمائے رکھتا ہے۔