سینٹ قائمہ کمیٹی، گھوسٹ پنشنرز کا معاملہ حل ہوسکا نہ بائیو میٹرک سسٹم پر اتفاق
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی +آن لائن) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں مختلف اداروں کے 6 لاکھ سے زائد گھوسٹ پنشنرز کا معاملہ حل ہوسکا نہ بائیو میٹرک سسٹم کا نفاذ، ہر چھ ماہ بعد ہیلتھ سرٹیفکیٹ کی فراہمی اور ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم کی سفارشات پر اتفاق رائے ہوا۔ صوبوں کے اکاﺅنٹنٹ جنرل افسران نے نیشنل بنک حکام پر پنشنرز کا ڈیٹا فراہم نہ کرنے کا الزام عائد کردیا، کمیٹی نے تمام پنشنرز کا ڈیٹا تیار کرنے ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کی سفارش کردی جبکہ پاک آرمی کے پنشن سسٹم پر اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس چیرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت میں پارلیمنٹ لاجز میںمنعقد ہوا۔ اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے اے جی پی آر کے افسران نے بتایا کہ ملک میں پنشن وصول کرنیوالوں کی مجموعی تعداد 25 لاکھ 72 ہزار 863 ہے جس میں نیشنل بنک اور ڈاکخانوں کے ذریعے 22 لاکھ 23 ہزار 807 افراد کو پنشن فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں پنشنرز کی صحیح تعداد معلوم کرنے کےلئے انہیں ڈائریکٹ کریڈٹ سسٹم کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ ہر چھ ماہ کے بعد پنشنرز کے زندہ ہونے کا ثبوت طلب کیا جائے، بائیومیٹرک سسٹم کا نفاذ عمل میںلایا جائے اور نیشنل بنک میں پنشنرز کے ڈیٹا کا اندرونی اور بیرونی سطح پر آڈٹ کا نظام بنایا جائے۔ کمیٹی کے رکن سینیٹر الیاس بلور نے کہا ملک میں لاکھوں گھوسٹ پنشنرز حکومت سے ہر ماہ کروڑوں روپے لے رہے ہیں مگر ہمارے پاس انکا ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا حکومت کی کوششوں کے باوجود صورتحال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے، لوٹ مار جاری ہے، بنکوں اور ڈاکخانوں میں پنشنرز کے نام پر کرپشن ہورہی ہے، کئی برسوں سے فوت ہونے والے ملازمین کے نام پر پنشن وصول کی جا رہی ہے۔ چیئرمین نے کہا یہ بات مضحکہ خیز ہے، زندہ شخص سے اسکی زندگی کا ثبوت مانگا جائے ادارے ایسا نظام وضح کریں جس میں گھوسٹ پنشن لینے والوں کا خاتمہ ہوسکے۔ کمیٹی نے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ (ای او بی آئی ) کی جانب سے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اگلے اجلاس میں وضاحت کے ساتھ شرکت کرنے کی ہدایت کردی۔
قائمہ کمیٹی خزانہ