ایل این جی سپلائی کے قانونی انتظامی اور تجارتی معاملات پر تنازعات شدت اختیار کر گئے
اسلام آباد (آن لائن) ایل این جی سپلائی کے قانونی انتظامی اور تجارتی معاملات پر تنازعات مزید شدت اختیار کرگئے ہیں۔ سوئی سدرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ کی قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر عظمیٰ عادل خان نے وزارت پٹرولیم کے احکامات ماننے اور چارج لینے سے انکار کر دیا اور انکے سابق اےم ڈی عارف حمید نے عدالت میں اپنی برخاستگی کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اگرچہ یہی کافی نہیں تھا ۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی عبوری ری گیسیفائڈ ایل این جی کی قیمت بھی جاری کرنے سے گریز کیا جو چھ ماہ سے زائد عرصے سے کثیر صارفین کو فروخت کی جا رہی ہے ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت پٹرولیم کی دو ٹیمیں ، ایک کی سربراہی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی جبکہ دوسرے کی سربراہی سیکرٹری ارشد مرزا کر رہے ہیں نے لاہور اور اسلام آباد میں مصروف ہفتہ گزارا ہے ۔ جس کا مقصد ثانوی قیادت کو معاہدوں اور قیمتوں کے نوٹیفیکیشن کے حوالے سے قائل کرنا تھا ۔پی ایم ایل (ن) کے سینئر ارکان نے پس پردہ مداخلت کی ہیں تاکہ معاملات کو شفاف بنایا جا سکے اور سردیوں کی آمد پر گیس کی کمی کو دور کیا جا سکے ۔رپورٹ کے مطابق عظمی عادل خان نے پٹرولیم منسٹری کو لکھے گئے مراسلہ میں کہا ہے کہ میں یہ ایڈوائس دینے پر مجبور ہوں کہ میں بطور کمپنی کے قائم مقام ایم ڈی کا چارج سنبھالنے سے قاصر ہوں کیونکہ قانون کے تحت یہ نوٹیفیکیشن نقائص سے پر ہے ۔ ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی عجیب و غریب بات ہے کہ عظمی خان جو کہ چیف فنانسر آفیسر تھیں اور انہیں قائم مقام مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے نوٹیفیکیشں جاری کیا گیا اگرچہ کمپنی میں دو ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر پہلے سے کام کر رہے تھے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت پٹرولیم اور اوگرا کے درمیان مذاکرات بغیر کسی نتیجے پر ختم ہوئے ہیں کیونکہ ریگولیٹر کو مکمل دستاویزات معاہدے اور کمپنیوں و ایل این جی صارفین کے درمیان معاہدے کی کاپیاں چاہئے تھی ، دریں اثناء وزارت پٹرولیم نے کہا ہے کہ میڈیا میں مسخ شدہ تصویر اور حقائق پیش کیے جا رہے ہیں ۔
ایل این جی/ اختلافات