سیکورٹی فورسز نے 6 حملے روکے‘ برطانیہ کو اسلامی انتہا پسندی سے پہلے کی نسبت آج زیادہ خطرہ ہے : ڈیوڈ کیمرون
لندن (نوائے وقت رپورٹ/ بی بی سی) برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ پولیس اور سکیورٹی سروسز نے برطانیہ میں کم از کم 6 دہشت گرد حملے روکے برطانیہ کو آج اسلامی انتہا پسندی سے پہلے سے کہیں زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ ادھر لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق لندن میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد جرائم میں گذشتہ ایک سال میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ لندن پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے گذشتہ 12 مہینوں میں ’اسلامو فوبیا‘ کی 816 وارداتیں ہوئی ہیں جبکہ اس سے قبل اسی مدت میں 478 وارداتیں ہوئی تھیں۔ مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ’ٹیل ماما‘ کے مطابق خواتین اس قسم کے تشدد کا زیادہ نشانہ بنی ہیں۔ تنظیم نے ’اِن سائڈ آو¿ٹ لندن‘ کو بتایا کہ حجاب یا برقع پہننے والی خواتین کے خلاف زیادہ شدید واقعات پیش آئے ہیں۔ لندن پولیس کے مطابق یہ وہ جرائم ہیں جو کسی کے مسلمان ہونے یا اسے مسلمان سمجھے جانے کی وجہ سے کئے جاتے ہیں۔ان وارداتوں میں سائبر ب±لیئنگ (انٹرنیٹ دھمکی) سے لے کر جارحانہ حملے شامل ہیں۔ اس قسم کے جرائم میں سب سے زیادہ اضافے والے علاقوں میں جنوب مغربی لندن کا میرٹن علاقہ شامل ہے جہاں جولائی سنہ 2014 میں آٹھ واقعات درج کیے گئے تھے جبکہ اس کے بعد وہاں 29 وارداتیں درج کی گئیں۔ یہ اضافہ 263 فی صد ہے۔ جبکہ سکاٹ لینڈ کے اعداد و شمار کے مطابق ویسٹ منسٹر میں سب سے زیادہ اسلام مخالف 54 واقعات پیش آئے ہیں۔ ٹیل ماما نے بتایا کہ خواتین اس قسم کے جرائم کا تقریباً 60 فی صد شکار ہوتی ہیں۔ ٹیل ماما کی ڈائرکٹر فیاض مغل کہتی ہیں: ’ہم نے محسوس کیا کہ گلی محلے کی سطح پر جو مسلم خاتون حجاب یا دوپٹے میں نظر آتی ہے اس کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘ اس ادارے کا کہنا ہے کہ جو خواتین اس قسم کے جرائم کا شکار ہوئی ہیں وہ پولیس سے بھی رابطہ کرنے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ انھیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس سے حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ برطانیہ کی تقریباً ساڑھے چھ کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 27 لاکھ مسلمان ہیں، جن میں سے 37 فیصد کے لگ بھگ لندن میں رہتے ہیں۔ منافرت کے متعلق جرائم کی سربراہ میک کرشٹی نے کہا: ’مسلم مردوں کے مقابلے میں مسلم خواتین کو زیادہ نشانہ بنائے جانے کی کئی وجوہات ہیں۔ ’ان کے لباس واضح طور پر ان کے مسلم ہونے کی دلیل ہوتے ہیں اور وہ عام طور پر بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور حملہ کرنے والوں کی یہ بزدلانہ سوچ ہوتی ہے کہ بچوں کے ہمراہ خواتین کو نشانہ بنانا مردوں کے مقابلے آسان ہے۔‘