• news

فریال تالپور کی لاہور آمد‘ بلاول پر زرداری کا اظہار عدم اعتماد

لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلزپارٹی میں ہر روز بدلتے فیصلوں نے پارٹی کے اندر خلفشار کو اور نمایاں کردیا ہے اور بلاول بھٹو کے تمام دعوﺅں کے باوجود کہ وہ اب پارٹی کی کمان سنبھال کر اہم نوعیت کے فیصلے کریں گے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کیلئے فرنٹ فٹ پر کھیلیں گے مگر انکے اس دعوے کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انکے والد اور شریک چیئرمین آصف زرداری نے ایک اور ترپ کا پتہ کھیلا ہے اور اپنی بہن اور چیئرمین کی پھوپھی فریال تالپور کو لاہور بھیج دیا ہے تاکہ وہ پارٹی کی گرتی ساکھ کو سنبھالا اور جیالوں کا جوش و خوش لانے کی کوشش کریں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب بلاول بھٹو زرداری لاہور میں موجود ہیں اور انکی جنوبی پنجاب کے اضلاع کے پارٹی عہدیداروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لاہور آنے سے قبل پارٹی چیئرمین نے یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ پارٹی کے معاملات کو وہ خود دیکھیں گے اور کسی قسم کی ”مداخلت“ کو برداشت نہیں کریں گے۔ فریال تالپور کی لاہور آمد اسی بات کا کھلا ثبوت ہے کہ آصف زرداری ابھی بھی بلاول کو سیاسی اعتبار سے دانشمند نہیں سمجھتے اور اس کا وہ برملا اظہار کر چکے ہیں۔ دوسری جانب میثاق جمہوریت پر دستخط کرنیوالی جماعت کا لب و لہجہ اب انٹی نواز شریف ہوتا جارہا ہے جس سے دوریاں مزید بڑھیں گی اور پیپلزپارٹی کے گرد دائرہ تنگ کرنے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔ عسکری قیادت سے نارضی اور نواز شریف سے مخاصمت کے اس نئے دور میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کیلئے ناسازگار ماحول پیدا کردیا ہے جس سے نبٹنے کی صلاحیت اور پارٹی کے سینئر رہنماﺅں کے منطقی ہونے کے بعد موجودہ قیادت میں نہیں ہے۔ دوسری طرف منظور وٹو کے خلاف اندرونی بغاوت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔ فریال تالپور کیلئے صورتحال کسی صورت سہل نہیں ہوگی کیونکہ انکے مقامی قیادت کے ساتھ ذاتی روابط نہیں ہیں۔ روابط کو استوار کرنے میں انہیں ”بیساکھیوں“ کی ضرورت ہے جو انکو میسر نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ 2013ءکے انتخابات اور اسکے بعد ملتوی ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فریال تالپور نے پنجاب میں ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل کی نگرانی کی تھی مگر انکے فیصلوں کے نتائج پارٹی کے حق میں مثبت نہیں نکلے۔ پیپلزپارٹی سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف اٹھائے گی۔ مسلم لیگ (ن) صرف اس صورت میں مستفید ہو سکتی ہے کہ پیپلزپارٹی سے ٹوٹ کر آنے والے امیدواروں کو اپنے ورکرز پر ترجیح دیکر ٹکٹیں دیدی جائیں مگر یہ خود مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پیپلزپارٹی /مشکلات

ای پیپر-دی نیشن