• news
  • image

سیاست میں اینٹ سے اینٹ بجانا اور بھٹوز

لگتا ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانا زرداریوں کا خاندانی مسئلہ ہے مگر ہم تو بلاول بھٹو زرداری کے لئے بلاول بھٹو کے نام سے سیاسی طور پر آگے آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ذوالفقار بھٹو شہید نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تھا۔ سیاست میں ایک جارحانہ طرز عمل اختیار کیا مگر ان کی باتوں کو لوگ انجوائے بھی کرتے تھے۔ شہید بے نظیر بھٹو کے لیے بھی یہ تاثر عام ہوا کہ وہ بہادر خاتون ہیں۔ بہادر ظالم نہیں ہوتے اور ظالم کبھی بہادر نہیں ہوتے۔ میرا اشارہ کسی کی طرف نہیں ہے مگر کوئی بھی اپنے طور پر قیاس کر سکتا ہے۔ مجھے تو یہ بات کھائے جا رہی ہے کہ بلاول اپنی ماں اور اپنے نانا کی یاد سے اپنا دل آباد نہیں کر رہا بلکہ اپنے والد ”صدر“ زرداری کے نقش قدم پر چلنے لگا ہے۔ جبکہ وہ نقش قدم مٹاتے ہوئے جاتے ہیں۔ 

”صدر“ زرداری نے پچھلے دنوں جرنیلوں کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ میری کرپشن پکڑنے کے لئے میرے ”خاص“ دوستوں کو پکڑا تو میں اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ یہ بات اپنے ”یار خاص“ منظور قادر کاکا کو زیرتفتیش لانے کے بعد کہی اور پھر بیرون ملک چلے گئے۔ نجانے وہاں کس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی جلدی تھی؟
اب لاہور میں بلاول نے طبل جنگ بجایا ہے۔ جیسے موسیقار طبلہ بجاتے ہیں۔ انہوں نے ن لیگ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا ہے برادرم شوکت بسرا بلاول کے ساتھ بیٹھے تھے۔ درمیان بختاور بیٹھی تھی۔ شوکت بسرا میرے دوست ہیں۔ وہ بہت امید سے ہیں کہ انشااللہ بلاول کی قیادت میں پیپلز پارٹی کو زندہ کریں گے۔ بلاول کی ملاقات پیپلز پارٹی کے ان مخلص دلیر اور پرانے لوگوں سے کرائیں گے۔ شوکت نے اور میں نے ایک بہت زبردست جینوئن اور پیپلز پارٹی کے وفادار شخص رانا آفتاب کا نام لیا اور اسلام آباد میں رانا صاحب کی ملاقات بلاول بھٹو سے ہو بھی گئی۔
مگر اینٹ سے اینٹ بجانے والی بات میرے دل میں اٹکی ہوئی ہے۔ میں نے ایک جملہ لکھا تھا کہ ”صدر“ زرداری کے دونوں ہاتھوں میں سونے کی اینٹیں ہیں اور وہ اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں جیسے تالی بجائی جاتی ہے۔ بلاول نے یہی کام کیا مگر میرے خیال سے ان کے ہاتھوں میں چاندی کی اینٹیں ہیں۔ بلاول کے ہاتھوں میں سونے کی اینٹیں دیکھ کر ممکن ہے کہ ”صدر“ زرداری کو کوئی شک پڑ جائے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ بلاول بختاور اور آصفہ کو جو کچھ دیا وہ ”صدر“ زرداری نے دیا۔ شاید وقت ملتا شہید بی بی کو تو وہ بھی کچھ دیتی اور وہ یقیناً ”صدر“ زرداری سے مختلف ہوتا، اہم ہوتا اور بیش بہا ہوتا۔ بلاول زرداری کو بلاول بھٹو زرداری ”صدر“ زرداری نے بنایا۔ بی بی ہوتی تو اس کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ بختاور اور آصفہ کو بھی یہ نام انہوں نے دیے۔ بختاور اور آصفہ کبھی کسی پریس کانفرنس میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ نظر نہ آئیں۔ پارٹی اجلاس کی صدارت کے دوران اس طرح بیٹھی نظر نہ آئیں جیسے ”صدر“ زرداری کے ساتھ نظر آتی ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بھی آصف زرداری نے بنایا تو جیالوں نے زرداری صاحب کو شریک چیئرمین مان لیا اور سیاست میں شریکے کی روایت شروع ہو گئی۔ اب بلاول پاکستان میں ہے اور ”صدر“ زرداری اب پاکستان نہیں آئیں گے۔ ان کے لیے غیرمعمولی حالات ضروری ہیں۔ بھٹوز کے ساتھ محبت کرنے والے سوچتے ہیں کہ زرداری صاحب نے اپنے بچوں کو بھٹو کا نام کیوں دیا ہے؟ پیپلز پارٹی کی کہانی بھٹوز کی قربانی سے زندہ ہے۔ اس کہانی کا عنوان سیاسی شہادت ہے۔ پیپلز پارٹی کے ہر دور کے لیے یہ قربانی کیوں ضروری ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید ہوئے تو بے نظیر بھٹو کو حکومت ملی۔ بے نظیر بھٹو شہید ہوئی تو ان کے بچوں کے باپ آصف زرداری کو حکومت ملی۔ اب بلاول بھٹو زرداری کو حکومت کیسے ملے گی۔ آصفہ آصف زرداری کے زیادہ قریب ہے۔ کیوں بہت سے ورکرز چاہتے ہیں کہ بلاول بھٹو اپنے نام کے ساتھ زرداری کا لاحقہ ختم کر دے۔ مرتضیٰ بھٹو کا شہادت نما قتل کیوں کرایا گیا۔ بے نظیر بھٹو کا خیال تھا کہ وہ اقتدار میں آ کے اپنے بھائی کے دن دیہاڑے سرکاری قتل کی تفتیش کرائیں گی۔ تب سرکار بے نظیر بھٹو کی تھی اور زرداری صاحب شریک تھے۔ ان کے بعد بھی شریک چیئرمین بنے۔ اس میں کیا راز ہے۔ مرتضیٰ کے قتل کی تفتیش بھی کس نے نہ ہونے دی۔ بی بی کے قتل کی تفتیش بھی نہ ہونے دی گئی۔ پوسٹ مارٹم بھی نہ ہونے دیا گیا۔ مرتضیٰ بھٹو کا پوسٹ مارٹم بھی نہ ہو سکا۔
یہ خبر کس نے اڑائی ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنی کزن فاطمہ بھٹو سے رابطہ کیا ہے؟ فاطمہ بھٹو نے جو شرط رکھی تھی وہ بھی پھیلائی گئی۔ فاطمہ بھٹو کا سیاسی کیرئر تو غنویٰ بھٹو نے نہ بننے دیا۔ وہ اگر خود سیاستدان نہ بنتی اور اپنے آپ کو لیڈر بنانے کی ناکام کوشش نہ کرتی اور فاطمہ بھٹو کو آگے آنے دیتی تو شہید بی بی بھٹو کے بعد میدان فاطمہ کے ہاتھ میں ہوتا۔ غنویٰ نے وہی غلطی کی جو ممتاز بھٹو نے کی تھی۔ دونوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ ”صدر“ زرداری بھی غنویٰ بھٹو بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ آغاز میں ”صدر“ زرداری نے سونیا گاندھی بننے کی خواہش کی تھی مگر کوشش نہ کی۔
نصرت بھٹو کی خواہش تھی کہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان بن جائیں مگر اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو وزیراعلیٰ سندھ بنا دیں مگر بے نظیر کو کچھ سوچنے سمجھنے ہی نہ دیا گیا۔ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بھائیوں کی سیاست دیکھ لیں اور حکومت دیکھ لیں۔ نواز شریف وزیراعظم پاکستان ہیں تو شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ دونوں گھرانے اس پر بھی متفق ہیں کہ حمزہ شہباز شریف پنجاب کے لیے تیار رہیں جبکہ وہ ایم این اے ہیں اور نواز شریف مریم نواز شریف کو تیار کیے بیٹھے ہیں۔
بلاول نے ایک بات دلچسپ کی مگر اس میں بھی ”صدر“ زرداری کی سیاست کا عکس نظر آتا ہے جبکہ بات اس کے برعکس ہونے میں بنے گی۔ بلاول نے کہا اب مفاہمت کی بجائے مزاحمت کی سیاست چلے گی۔ ”صدر“ زرداری تو جانتے ہیں کہ مفاہمت میں مزاحمت ہوتی ہے اور انہوں نے اسی سے کام لیا ہے۔ اب بلاول مزاحمت میں جو مفاہمت ہوتی ہے اس سے کام لیں۔ شوکت بسرا کے علاوہ کراچی سے شہلا رضا بلاول کے ساتھ ساتھ رہیں۔ وہ پارٹی کے معاملات کے لئے دردمندی سے سوچتی ہیں سب ان پر اعتبار کرتے ہیں۔ صدر زرداری کے لیے بھی وہ قابل اعتبار ہیں۔ بہت حیا وفا والی خاتون ہے۔ منور انجم بھی آگے آئیں۔ ان کو بلاول سے شہید بی بی کی خوشبو آتی ہے تو آگے آئیں۔
لاہور میں فریال تالپور بلاول کے ساتھ براجمان تھی جبکہ وہ ورکرز کو بلاول سے دور رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ورکرز وہ ہیں جو زرداری کے قریب ہیں اور بلاول کو پسند کرتے ہیں کہ انہیں اس نوجوان میں بھٹوز کا عکس نظر آتا ہے۔ اجلاس میں جیالے فریال تالپور سے الجھ پڑے اور بات بہت آگے نکل گئی۔ وہ غصے میں اٹھ کر چلی گئی۔ کوئی اسے واپس لانے کے لیے نہیں گیا۔
بلاول کو بات کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے۔ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی والوں کی طرح جیالے وضاحتیں کرنے لگتے ہیں۔ کوئی جمیل سومرو ہے اس نے وضاحت کی ہے۔ جمیل سومرو نجانے ڈاکٹر قیوم سومرو کے کیا لگتے ہیں۔ اس کی ڈیوٹی بلاول پر تو نہیں لگ گئی؟ بلاول نے نواز شریف کی اور ”صدر“ زرداری نے راحیل شریف کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی ہے۔ نواز شریف دکھی ہوئے ہیں۔ راحیل شریف دکھی نہیں ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ بلاول نے سچے دل سے بات کی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن