شرح سود 6 فیصد مقرر‘ بجلی پر سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی بڑھنے کا خطرہ ہے: سٹیٹ بنک
کراچی (سٹاف رپورٹر+ آن لائن) سٹیٹ بینک نے ملکی معاشی حالات میں بہتری کے پیش نظر پالیسی ریٹ میں 6.5 فیصد سے 0.5 فیصد کمی کرکے 6 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سٹیٹ بنک کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے تاہم بجلی پر سبسڈی کے خاتمے سے مہنگائی بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔ امن و امان کی بہتر صورتحال کی باعث سرمایہ کار اور صارف کا اعتماد بڑھ رہا ہے، مالی سال 2016ء میں مزید معاشی سرگرمیوںکی امید ہے۔ توانائی کی فراہمی میں بہتری ہونے کے باعث بڑے پیمانے پر اشی سازی کی نمو میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 42 سال میں شرح سود میں یہ سب سے زیادہ کم سطح ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت انفراسٹرکچر کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں پر عملدرآمد سے سرمایہ کاری کے ماحول میں اور بہتری آئے گی۔اگست 2015ء میں مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ کم ہوکر 1.7 فیصد ہوگئی اور تازہ ترین سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ آئندہ مہینوںمیںگرانی میں مزید کمی آئے گی تاہم ٹیکسٹائل کے شعبے میں ساختی رکاوٹیں اور اجناس کی کمی عالمی قیمتی برآمدات کیلئے بدستور بڑا خطرہ ہیں ۔ آئندہ دو ماہ کیلئے جاری کی گئی مانیٹری پالیسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2015 ء میںسال بسال گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کم ہوکر 7ئ1فیصد ہوگئی جبکہ اگست 2014ء میں یہ 7.0 فیصد تھی۔ گذشتہ کئی ماہ کے دوران کمی کے اس رجحان کے بعد اگست 2015ء میں بارہ ماہ کی حرکت پذیر اوسط گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کم ہوکر 3.6 فیصد ہوگئی۔ اگست 2014ء میں یہ 8.4فیصد تھی۔ اگست 2015ء میں دیگر اشاریئے بھی کم ہوئے جیسے قوزی گرانی کے پیمانے گرتی ہوئی گرانی کی بڑی وجوہات سازگار رسدی اور طلب کے انتظام کی پالیسیاں ہیں۔ موجودہ سست رفتاری کا سبب زیادہ تر تلف پذیر غذائی اشیا ء کی مناسب طور پر فراہمی اور تیل کی گرتی ہوئی بین الاقوامی قیمتوںکی صارفی قیمتوںکو منتقلی ہے۔ مانیٹری پالیسی رپورٹ کے مطابق موجودہ رجحانات کے تسلسل کے ہمراہ مجموعی طلب میںکسی قدر اضافہ مالی سال 2016ء میں گرانی کی راہ کا تعین کرے گا۔ قدرتی اور سی این جی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور ان کے دورِ ثانی کے ممکنہ اثرات کی تیل کی پست عالمی قیمتوں سے تلافی ہوجائیگی جو ابھی تک پست ترین سطح پر نہیں پہنچی ہیں۔ چنانچہ مالی سال 2016ء کیلئے گرانی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت کے حوالے سے سٹیٹ بینک کی پیش گوئی تبدیل نہیںہوئی وہ 4.5 سے 5.5 فیصد کی حدود میں ہے جو 6 فیصد کے سالانہ منصوبے کے ہدف سے کم ہے تاہم اس پیش گوئی میں اضافے کے دوخطرات ہیں حکومت کا بجلی پر زر اعانت میںکمی کے ساتھ اسکے نرخوں میں اضافے کا منصوبہ اور کم غذائی قیمتوں کے فصلوںکی پیداوار پر ممکنہ منفی اثرات۔ پیش گوئی میںکمی کے خطرات میں تیل سمیت اجناس کی عالمی قیمتوں کی بحالی کا کم امکان شامل ہے۔ موجودہ رجحانات اور پیش گوئیوں کے تناظر میںکمی کے خطرات اضافے کے خطرات سے زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ ستمبر 2015ء کے تازہ ترین آئی بی اے سٹیٹ بینک سروے سے پتہ چلا ہے کہ آئندہ مہینوں میںگرانی میں مزید کمی آئے گی۔ مانیٹری پالیسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 16ء کے آغاز میں بیرونی جاری کھاتے کی صورتِ حال پچھلے مالی سال کے آخر سے زیادہ مختلف نہیں۔ جولائی 2015ء میںبرآمدات میں مزید کمی آئی تاہم تیل کی درآمدی ادائیگیوںاور کارکنوںکی ترسیلات ِزر کے باعث بیرونی جاری کھاتے کے خسارے میںتھوڑی بہتری دکھائی دی۔ مانیٹری پالیسی رپورٹ کے مطابق بیرونی شعبے کی پائیداری کے لیے برآمدات اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاریوںمیں اضافے ضروری ہیں۔ اس حوالے سے امن و امان کی صورت ِحال میں حالیہ بہتری اور معاشی استحکام کے تسلسل کی وجہ سے طویل مدتی بیرونی سرمایہ آنے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ امریکی معاشی بحالی اور یورپی یونین کی جی ایس پلس سکیم سے مزید فوائد کے ذریعے پاکستانی برآمدات کو تقویت مل سکتی ہے جس کی بہت ضرورت ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت انفراسٹرکچر کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں پر عملدرآمد سے سرمایہ کاری کے ماحول میں مزید بہتری آئے گی۔ 2016ء میں مزید معاشی سرگرمیوں کی امید ہے جس سے قرضے کے استعمال میں اضافہ متوقع ہے۔ بنیادی شرح سود کم ہونے سے کراچی سٹاک ایکسچینج کو تقویت ملے گی، صنعتوں اور عام افراد کو سستا قرضہ ملے گا، وہیں بنک اکائونٹس پر منافع بھی کم ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سٹیٹ بنک کی طرف سے قرضوں کی شرح سود میں کمی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ سٹیٹ بنک کے اس فیصلے سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ جولائی اگست میں مہنگائی کی شرح میں بھی 2 فیصد کمی رہی۔ سٹیٹ بنک کے ان اقدامات اور پالیسی ریٹ میں کمی معیشت کے استحکام کا واضح ثبوت بھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی یہ پوری کوشش ہے کہ 21 بلین ڈالر کا 2015ء کا ٹارگٹ حاصل کیا جائے اوراس کیلئے ہر ممکن کوششیں جاری ہیں۔