بھارتی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت اکٹھے کر لئے‘ اقوام متحدہ کو دینگے: سرتاج عزیز
کراچی (سٹاف رپورٹر ) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ مودی سرکار کے آنے کے بعد سرحدی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارت کے خلاف ٹھوس ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں ۔ یہ ثبوت اقوام متحدہ میں پیش کریں گے۔ پاکستان بھارت سے لڑائی نہیں چاہتا۔ ہم خطے میں استحکام چاہتے ہیں اور تمام پڑوسی ممالک سے برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ پاکستان کی سٹرٹیجک پالیسی واضح اور شفاف ہے ۔ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کے امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔ افغان مفاہمتی عمل جلد شروع کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان کا 95 فیصد علاقہ دہشت گردوں سے خالی کرا لیا گیا ہے اور دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو انسٹیٹیوٹ بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے تحت پہلے وزرائے خارجہ فورم سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر پاکستان کے سابق وزرائے خارجہ خورشید محمود قصوری، حناربانی کھر اور آئی بی اے کے ڈین ڈاکٹر عشرت حسین بھی موجود تھے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت سے لڑائی نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسائل کا حل مذاکرات سے نکالا جائے تاہم مذاکرات برابری کی سطح پر ہوں گے اور جب بھی مذاکرات ہوں گے، اس میں پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر ایجنڈا میں لازمی شامل ہو گا۔ موجودہ صورتحال میںمذاکرات شروع ہونے کے حوالے سے زیادہ ُپر امیدنہیںہے۔ انہوں نے کہا کہ روس اور افغانستان کی لڑائی کے خاتمے کے بعد طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد ان لڑنے والوں کو دہشت قرار دیا گیا ۔افغانستان خطے کا اہم ملک ہے۔اس سے پورے خطے کا امن وابستہ ہے ۔انہو ں نے کہا کہ دورہ کابل میں مذاکرات اور دیگر مسائل کے حوالے سے اہم امور پر بات چیت ہوئی ہے ۔پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو اور اس حوالے سے ہم مفاہمتی عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے بھرپور کوشش کررہے ہیں جس کے لیے تمام فریقین کو بات چیت کرنا ہوگی ۔انہوں نے دنیا بھر کے ممالک کی خارجہ پالیسی سرد جنگ کے بعد تبدیل ہونا شروع ہوئی ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی میں گزشتہ دس سال میں اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ہماری خارجہ پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی کے معاملے میں مداخلت نہیں کرتے تاہم اپنی سا لمیت پر بھی کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کریں گے۔ حکومت کی تین ترجیحات ہیں جن میں دہشت گردی کا خاتمہ ،معاشی استحکام اور برابری کی سطح پر تمام ممالک سے تعلقات بنانا ہے ۔انہوں ے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ستمبر 2013میں کراچی آپریشن شروع کیا گیا ۔شمالی وزیرستان کے حالات بہت خراب تھے ۔ہم نے معاملات کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی تاہم جون 2014 آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور دہشت گردوں سے 95فیصد علاقہ کلیئر کرایا جاچکا ہے۔ جبکہ شوال کے علاقے کو کلیئر کرانے کے لئے آپریشن جاری ہے ۔اس آپریشن میں دہشت گردوں کے اثاثے اور ٹھکانے تباہ کردیئے گئے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ 60 ہزار پاکستانی دہشت گردی کی جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز نے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں ۔سانحہ آرمی سکول پشاور کے بعد ملک میں قیام امن کے لیے قومی ایکشن پلان بنایا گیا ہے۔ اس پر عملدرآمد کیا جارہاہے۔ اسی ایکشن پلان کے تحت مدارس میں اصلاحات کی جائیں گی۔ مدارس کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ چین دنیا کی ایک طاقت کے طور پر ابھررہا ہے ۔پاکستان اور چین کے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبہ دونوں ممالک کیلئے سٹرٹیجک اور معاشی لحاظ سے بہت اہم ہے اور پاکستان اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی اندرونی حالات کے پیش نظر بنتی ہے ۔ متوازن خارجہ پالیسی کیلئے ضروری ہے کہ ملک معاشی اور سیاسی سطح پرمستحکم ہو۔ گزشتہ روز سعودی عرب میں جو حادثہ پیش آیا ہے اس پر انتہائی افسوس ہے ۔سعودی عرب سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں ہم سعودی حکومت اور عوام کے ساتھ ہیں۔ جو پاکستانی اس صورت حال میں وطن واپس آنا چاہتے ہیں انہیں حکومت بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ روس کے خلاف امریکہ کی مدد سے پاکستان میں افغان مجاہدین کو تربیت دی اس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ اگر نریندر مودی کامیاب وزیراعظم بننا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی ۔بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات چیت کریں گے۔ پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کے پاس بہت سے معاملات ہیں اس لیے پاکستان کو فل ٹائم وزیرخارجہ کی ضرورت ہے۔ سابق وفاقی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان جس خطے میں ہے وہاں دوست ملک بھی ہیں اور دشمن ملک بھی ہیں ۔ خارجہ پالیسی بناتے وقت بھارت اور افغانستان کی صورت حال کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی آزاد ہونی چاہیے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ رینجرز اور بی ایس ایف میں ملاقاتیں مثبت رہی، امید ہے کشیدگی میں کمی آئے گی، بھارت سے بغیر شرائط مذاکرات کیلئے تیار ہیں، ملکی خارجہ پالیسی اتار چڑھائو شکار رہی ہے حکومت نے خارجہ پالیسی کو متوازن رکھنے کیلئے کئی اہم اقدامات کئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا کہ بھارت کے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دہشت گردی پھیلانے سے متعلق ثبوتوں پر مشتمل دستاویزات تیار کر لی گئی ہیں جو اقوام متحدہ کو فراہم کی جائیں گی۔ ان دستاویزات کو قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات میں پیش کیا جانا تھا لیکن چونکہ یہ ملاقات نہیں ہو سکی اس لئے اب ان دستاویزات کونیویارک لے جائیں گے اور اقوام متحدہ کو دیں گے۔ افغانستان میں تیزی سے خانہ جنگی اور شورش بڑھ رہی ہے جس کے ردعمل میں کہا گیا کہ پاکستان نے طابان سے بات چیت کرکے اس شورش کو کم کیوں نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ بات چیت سے شورش میں کمی نہیں آتی جب تک کہ مفاہمت نہ ہو جائے۔ اسی لئے ایک بار پھر کوشش کر رہے ہیں۔ کہ مفاہمت کا عمل دوبارہ بحال ہو۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ملا عمر کی ہلاکت کے بعد چونکہ طالبان میں قیادت کی منتقلی کا عمل چل رہا ہے اس لئے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مفاہمت کے لئے مذاکرات کا عمل شروع ہوتے ہی افغانستان میں جاری شورش میں کمی آئے گی جس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔