تنخواہ دار، تاجر، ڈاکٹر اور اسحاق ڈار!
میں ہمیشہ ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے حق میں رہا ہوں اور اس حوالے سے کالم بھی لکھتا رہا ہوں کہ ٹیکس کے عوض عوام کو تعلیم، صحت، صفائی، گھر، روزگار وغیرہ جیسی بنیادی سہولیات سے ہر گز محروم نہ رکھا جائے۔ میں نے ہمیشہ جائز طریقے سے ’ٹیکس کولیکشن‘ کے طریقہ کار کی ہمیشہ تعریف کی ہے۔ لیکن اس بار تو سمجھ سے باہر ہے کہ چارٹرڈ اکائونٹینٹ کا وسیع تجربہ رکھنے والے ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کیا سوجھی ہے کہ وہ نت نئے ٹیکس لگا کر عوام اور تاجر برادری جو پہلے ہی بجلی کے بلوں، ٹیکسوں، کرایوں، مہنگائی، کرپشن کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کو مزید نچوڑ کر قارون کا خزانہ تلاش کر رہی ہے۔ بنکوں سے روز مرہ کی ٹرانزیکشنز پر جگا ٹیکس لگا کر اسحاق ڈار نے پتہ نہیں کون سا اچھوتا اور عوام دوست کام کیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حکومت لوگوں کی امانتوں پر ڈاکہ ڈال کر ٹیکس اکٹھا کرنا چاہ رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو شاید یہ علم نہیں کہ پاکستان سے 4ہزار نہیں بلکہ 8ہزار ارب روپے انکم ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے لیکن اس ٹیکس کے بدلے لوگوں پر خرچ تو کرو، عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا آغاز تو کرو، انہیں بنیادی سہولتیں تو دو۔
میں مانتا ہوں کہ ہمارے وزیر خزانہ کو اپنی کوالیفکیشن تجربہ پر بے شک عبور حاصل ہو گا، وہ فنانس کو اِدھر اْدھر کرنے کے ماہر ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ عوام کو ڈرائونے خواب اور ڈرائونا مستقبل دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے بلکہ پاکستانی عوام پر بار بار ٹیکس لگا کر حکومت نے ان کا جینا محال کر دیا ہے۔ پہلے ہی عوام گیس، بجلی اور مہنگائی کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہو کر زندگی گزار رہے ہیں۔ وزیر خزانہ جن ترقی یافتہ ممالک کے نظام کو دیکھ کر ٹیکس لگا رہے ہیں وہ اپنے عوام کو ہر قسم کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔ وہ اپنے عوام کے تحفظ کیلئے ہر سطح تک جاتے ہیں۔ وہاں عوام بھی حکومت سے خوش ہو کر ٹیکس ادا کرنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں لیکن یہاں عوام سے زبردستی ٹیکس لینے کے بعد انہیں کچھ ریٹرن نہیں کیا جارہا۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان کی عوام سینکڑوں قسم کے ٹیکس ادا کرنے کے باوجود تیسرے درجے کے شہری تصور کیے جاتے ہیں۔ آج یہ تاثرعام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ یہاں سے کاروباری حضرات دوسرے ملکوں میں بھاگ جائیں،،مجھے تو گیلانی کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جب ان سے انٹرویو میں ایک سوال کیا گیا تھا کہ ہزاروں پاکستانی اس ملک کو چھوڑ کر جانا چاہ رہے ہیں؟ تو ہمارے قومی لیڈر نے کچھ دیر رک کر یہ جواب دیا تھا کہ انہیں روکا کس نے ہے؟ ہمارے لیڈروں کی سوچ تو اس سے بھی بد تر ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کو شاید یہ علم نہیں کہ ملک سے ایک تاجر کے باہر جانے سے وہ اپنا سارا سرمایہ بھی بیرون ملک منتقل کر دیتا ہے۔ جس سے ملکی معیشت دبائو میں آجاتی ہے۔ خدارا ان کا تحفظ کیجیے اور ود ہولڈنگ جیسے ٹیکس تاجر برادری کو بدظن کر رہے ہیں یہ وصولی زیادتی اور سودی بینکاری کا نہتے عوام پر حملہ ہے بدقسمتی سے اسلامی بینکس بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں اسلام میں جبری ٹیکس کا کوئی نظام نہیں یہ اسلامی معیشت کیخلاف اور سرمایہ داروں، جاگیرداروں کے تحفظ کا ٹیکس ہے بینکوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے حکومت کو فوری طور پر یہ ٹیکس واپس لینا ہوگا عوام کو سہولت دینے کے بجائے ان سے ظالمانہ ٹیکس زیادتی اور ظلم ہے۔عوامی حکومت کا دعویٰ کرنے والی حکومت غریب عوام پر پے درپے حملے کر رہے ہیں اور سرمایہ داروں جاگیرداروں کو تحفظ دے رہی ہے جو زیادتی اور ظلم ومعاشی دہشتگردی ہے جس کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائیگا۔
ایف بی آر اتنا بہادر اور حکومت کو ٹیکس کی اتنی ہی ضرورت ہے توسرمایہ داروں جاگیرداروں پر ٹیکس عائد کیا جائے حکومتی سطح پر سادگی وقناعت پسندی کو رواج دیا جائے۔ وی آئی پیز اور بیوروکریسی کی بڑ ی بڑی تنخواہوں ومراعات کو کم کیاجائے۔کرپشن وکمیشن کا راستہ روکا جائے۔ تاجر برادری اور عوام کا معاشی قتل کیوں کیا جارہا ہے عوام کو ریلیف وسہولت اور مراعات دینے، مہنگائی ختم کرنے کے بجائے حکومت نے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا فیصلہ کر دیا ہے معیشت تباہ ہوگئی ہے مہنگائی بے روزگاری اور اقرباء پروری کی وجہ عوام نان شبینہ کے محتاج ہے مگر حکمران طبقہ سب ٹھیک کے فارمولے کے تحت چل رہی ہے جو عوام کیساتھ بدترین زیادتی اور ظلم ہے۔
حکومت یہ بات بھی جانتی ہے کہ آج ملک کا ہر طبقہ سڑکوں پر ہے۔ کیا اساتذہ، کیا ڈاکٹر، کیا کلرک، کیا نرسیں، کیا اقلیتیں سب کے سب اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے سڑکوں پر موجود ہیں۔۔۔ سرکاری ملازمین کسی ملک کا سب سے اہم اثاثہ ہوتے ہیں اگر وہی سڑکوں پر آجائیں گے تو ملکی نظام کیا خاک چلے گا۔ ان سب ملازمین کا سب سے بنیادی مطالبہ تنخواہ میں اضافے کا ہوتا ہے۔ میں حکومت کو چیلنج کرتا ہوں کہ ماہانہ دس سے پندرہ ہزار روپے تنخواہ پانے والا ملازم جسکے کنبے کے افراد کل پانچ ہیں اس کا ماہانہ بجٹ اگر کوئی ماہر اقتصادیات بنا سکتا ہو تو بنا کر دکھائے۔ آج اس ملک عظیم کے دیانت داری اپنانے والے ملازم مفلوک الحال ہیں۔ سرکاری ملازمین اختیارات کے بل بوتے پر اخراجات پورے کرتے ہیں۔ یہ وہ محرکات ہیں جو رشوت اور بدعنوانی کو جنم دیتے ہیں اس کا واحد حل یہ ہے کہ ملازمین کو خودکفیل بنایا جائے۔
کم تنخواہ دار سرکاری ملازمین اس مہنگائی کے دور میں کسمپرسی کی حالت میں گزربسر کر رہے ہیں۔ ایک کلرک یا چپڑاسی جسکی زیادہ سے زیادہ تنخواہ پانچ سات ہزار ماہوار ہو وہ ان روپوں سے مکان کرائے پرلے، بچوں کے کپڑے بنوائے یا آٹا دال پوری کرے، جب کبھی تنخواہیں بڑھائی جاتی ہیں تو زیادہ تنخواہ پانے والوں کو مزید مراعات دے دی جاتی ہیں، جب کہ نچلے طبقے کی اگر تنخواہ بڑھتی ہے تو دکان دار اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں دگنا اضافہ کردیتے ہیں۔
حکومت کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ کسی ملک کے نظام کو بہترین حالت میں چلا کر اسے ترقی کی بلند ترین سطح پر لے جانے کیلئے سرکاری ملازمین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہی۔ جن میں بڑے افسران تو صرف نگرانی کے امور سر انجام دیتے ہیں لیکن اصل کردار چھوٹے ملازمین ادا کرتے ہیں انکا کردار کسی کارخانے کے کل پرزوں کی طرح ہوتا ہی۔ اگر سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ چھوٹے ملازمین ہی غیر صحت مند اور پریشان حال رہیں گے تو اس کا اثر پوری حکومتی مشینری پرپڑیگا۔ اب ہر چیز کی قیمت پہلے سے کم از کم سو گنا زیادہ ہوگئی ہے۔ نتیجتاً ملازمت پیشہ طبقے کی کارکردگی میں فرق آیا اور بدعنوانی اور رشوت ستانی نے فروغ پایا۔ تنخواہ میں ہر نیا اضافہ قیمتوں میں مزید اضافہ کا طوفان اپنے ساتھ لاتا ہے۔ چنانچہ ملازمین کی حالت بہتر بنانے کیلئے کچھ دوسری تدبیریں بھی اختیار کرنی ہوں گی۔
سرکاری یوٹیلیٹی اسٹوزر وغیرہ سے بازار سے50 فی صد رعایتی اشیاء خورنی اور ضروریات کا سرکاری طور پر مہیا کرنا چاہیے، اگر ضرورت پڑے تو اونچی آمدنی والے طبقے پر ٹیکس لگایا جائے۔ سفر اور رہائش کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اضافی سہولتیں مہیا کیا جائیں۔ تنخواہ ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دی جائے۔ سرکاری ملازمین کو رہائشی پلاٹ حکومت کی طرف ملنے چاہئیں۔ سرکاری ملازمین کیلئے سرکاری ہاؤسنگ اسکیم کا اجراء کیا جائے۔ مکانات صرف تین بیڈ روم کے ہوں اور مرحلہ وار رہائشی کالونیاں تعمیر کی جائیں۔
سرکاری ملازمین کے پے اسکیلز پر نظرثانی کی جائے اور پے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کو افراط زر کی شرح کے مطابق کیا جائے۔ تمام ایڈہاک ریلیف کو ختم کر کے تنخواہ کا حصہ بنایا جائے۔ (جاری)