• news

اتوار‘28 ؍ ذیقعد ‘ 1436ھ ‘ 13 ؍ ستمبر2015ء

ججز نظربندی کیس میں پرویز مشرف کو یکم اکتوبر کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم
اب تک پرویز مشرف جس چھتری تلے پناہ لیتے نظر آتے تھے وہ چھتری آہستہ آہستہ ان کے سر سے سرکتی جا رہی ہے اور مسائل کی برسات کے چھینٹے ان پر بھی پڑنے لگے ہیں۔ مثال مشہور ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی! ویسے بھی عید قربان نزدیک ہے، بکروں کے ساتھ ساتھ آج کل سیاسی ہوں یا غیرسیاسی … دیسی ہوں یا ولایتی… سول ہوں یا فوجی ہر قسم کے بکروں اور چھتروں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ ان کا سب کھایا پیا حلق میں انگلی ڈال کر اگلوایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سیاسی بکرا منڈی میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ ان بکروں کے بیوپاری شور مچا کر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ بیوپاریوں کی آہ و زاری اور بکروں کی بھیں بھیں سے کانوں کے پردے پھٹے جا رہے ہیں مگر محتسبوں کو ترس نہیں آ رہا! ایک تو محتسب اور وہ بھی وردی پوش تو پھر کس کو رہے ہوش! عوام خوش ہیں کہ کالی بھیڑیں بے نقاب ہو رہی ہیں اور اب مقدس گائیوں پر بھی ہاتھ ڈالا جا رہا ہے جس کے اچھے نتائج جلد ہی کراچی میں جاری رینجرز آپریشن یا وزیرستان میں جاری ’ضرب عضب‘ کی طرح سامنے آئیں گے۔
اب پرویز مشرف بھی ایسے ہی مکافات عمل کی وجہ سے پریشان ہونگے، ان باتوں سے ہٹ کر یہ ناقابل برداشت اذیت کیا کم ہے کہ انہیں 10مرتبہ یا تاحیات صدر بنانے کے دعویدار مجنوں حضرات اب ان کی طرف ایک نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کہاں جو لوگ انکے ایک اشارے پر جاں چھڑکتے نظر آتے تھے آج انکے سائے سے بدکتے نظر آتے ہیں۔ اسی افتاد زمانہ کی وجہ سے پہلے سے پریشان حال مشرف کو اب عدالتوں میں پیشی بھگتنا پڑی تو کیا ہو گا۔ جان حزیں جو پہلے سے ہی وقف آلام ہے کیا ان پے درپے صدمات اور بے رخیوں کی تاب لا سکے گی! بقول غالب…؎
تاب لاتے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
٭…٭…٭…٭
ایرانی مجرموں کو کتابیں خرید کر پڑھنے کی سزا
گنبد کائوس نامی شہر کے اس جج کا قلم چومنے کو جی چاہتا ہے جس نے یہ انوکھی مگر بہترین سزا تجویز کی ہے۔ جج نے کم عمر مجرموں کو جیل بھیجنے کی بجائے یہ سزا دی ہے کہ وہ اپنی جیب سے 5 کتابیں خرید کر پڑھنے کے بعد ہر کتاب کا خلاصہ لکھیں اور عدالت میں جمع کرائیں، بعد میں کتابیں عوامی لائبریریوں میں عطیہ کریں۔
ہماری طرح لگتا ہے ایران میں بھی جیلوں کی حالت زیادہ اچھی نہیں۔ عام انسان کسی غلطی کی وجہ سے وہاں جاتا ہے جب وہاں سے قید کاٹ کر باہر آتا ہے وہ مکمل اصلاح شدہ انسان نہیں ہوتا بلکہ مکمل مجرم بن چکا ہوتا ہے۔ جیلوں میں بند مجرم اور جیلوں کا عملہ اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا کرنے کی تربیت زیادہ بہتر طریقہ سے کرتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے ہمارے ہاں جو جیل چلا جائے واپسی پر استاد بن کر نکلتا ہے۔ سیاست سے لے کر عام زندگی میں کسی بھی ریکارڈ یافتہ، سزا پانے والے قیدی کی ہسٹری معلوم کریں۔ پتہ چلے گا کہ جب وہ جیل گیا تو جیب کترا تھا، باہر نکلا تو پکا ڈاکو بن چکا تھا۔
جیلوں کو اصلاحی مرکز بنانا تو دور کی بات ابھی تک ہم جیلوں میں بند چھوٹے جرائم میں ملوث کم عمر بچوں کے لئے علیحدہ جیلیں نہیں بنا سکے جہاں انہیں اچھا شہری بننے کی تربیت دی جاتی۔ بڑے اور عادی مجرموں کے ساتھ رکھ کر ہم انہیں اور بھی خراب کر دیتے ہیں اور وہ ایک تو ’کریلا اوپر سے نیم چڑھا‘ بن جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں گنبد کائوس کے جج کا یہ فیصلہ لائق تحسین ہی نہیں لائق تقلید بھی ہے ورنہ ہماری بات تو بقول شاعر…؎
قصر کسریٰ پردہ کنند تار عنکبوت
بوم نالہ می کند در گنبد افراسیاب
یعنی کسریٰ کے محل پر مکڑی کے جالے نے پردہ ڈال دیا اور افراسیاب کے گنبد پر الو بول رہا ہے… والا نوحہ ہی ثابت ہو سکتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
سرائیکی عوام ساتھ دیں، علیحدہ صوبہ دوں گا: بلاول
سرائیکی عوام کی محبت اور ان کے لئے علیحدہ صوبہ کے قیام کا جتنا درد بلاول کو ہے اس کا اندازہ اب ہوا ہے۔ اب سے 3 سال قبل تک جب ان کے قابل احترام والد محترم آصف زرداری پورے ملک کے حکمران تھے، تین صوبوں میں ان کی جماعت برسراقتدار تھی تو اس وقت انہوں نے سرائیکی عوام کو علیحدہ صوبے کا تحفہ کیوں نہ دیا۔ اس وقت یہ محبت کا طوفان جو اب امڈ رہا ہے کہاں مرا پڑا تھا۔ اگر عوام کے مطالبہ پر ایسا کیا جا رہا ہے تو بلاول جی آپ اتنے بھی کاکے نہیں ہیں، ذرا اپنے صوبے میں اور کراچی سے اٹھنے والی آوازوں پر بھی کان دھریں، وہ بھی علیحدہ صوبے کی مانگ کر رہے ہیں۔ صرف لسانی نفرت کا بہانہ بنا کر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ اردو بولنے والوں کی لسانی تحریک کا مطالبہ ہے ورنہ سرائیکی صوبہ بھی تو پنجاب میں صرف لسانی بنیاد پر مانگا جا رہا ہے حالانکہ سرائیکی اور پنجابی زبان ایک جیسی ہے لہجے کا ہی فرق ہے، اردو اور سندھی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان اردو بولنے والوں کیلئے آپ علیحدہ صوبے کے قیام کو کیوں سندھ کیلئے زہر قاتل سمجھتے ہیں جبکہ سرائیکی صوبے کو آپ سرائیکیوں کیلئے تریاق مانتے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی ناں… ؎
جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو یہاں پیو تو حرام ہے جو وہاں پیو تو حلال ہے
تو بلاول جی ایسا طرزعمل آپ کو مقبول بنانے میں معاون نہیں ہو سکتا۔ الٹا آپ اہل پنجاب کی ہمدردیاں بھی کھو رہے ہیں۔ پاکستان کے سب صوبوں کا یکساں احترام اور محبت ہم پر فرض ہے۔ اس وقت لسانی اور صوبائی طرز سیاست کی بجائے محبت اور اخوت کی سیاست عام کرنے کی ضرورت ہے۔ نفرتوں کی بجائے محبتوں کی فصل کاشت کریں وہ زیادہ بہتر ہے۔

ای پیپر-دی نیشن