استعفوں کی سیاست والوں کی حوصلہ شکنی‘ مڈٹرم الیکشن کے امکانات ختم
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کے درمیان رابطوں کے باوجود پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن قائم ہو سکی اور نہ ہی اپوزیشن حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس ریکوزیشن پر بلا سکی ہے جبکہ سینٹ میں اپوزیشن کی جانب سے ریکوزیشن جمع کرانے کے باوجود صدر مملکت نے سیyٹ کا اجلاس بلا لیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی بجائے پارلیمنٹ میں لڑائی لڑنے کا فیصلہ کر کے جہاں پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا ہے وہاں استعفوں کی سیاست کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کر دی ہے۔ ایم کیو ایم‘ تحریک انصاف کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے استعفے نہ دینے کے بعد ’’مڈٹرم الیکشن‘‘ کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی ’’وکٹ‘‘ پر کھیلنے کیلئے تیار نظر نہیں آئی۔ ریکوزیشن جمع نہ کرانے کی صورت میں ستمبر میں قومی اسمبلی کے سیشن کا ا مکان نہیں لہذا قومی اسمبلی کا اجلاس اکتوبر 2015 ء ہو گا۔ اکتوبر میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہونے سے حکومت کو دو مسائل کا سامنا ہو گا۔ حکومت این اے 122 کے انتخابی نتائج کا انتظار کرنا چاہتی ہے کامیابی کی صورت میں حکومت سردار ایاز صادق کو دوبارہ سپیکر بنانا چاہتی ہے۔ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں ایم کیو ایم کے استعفوں کا معاملہ ایک بار پھر اٹھایا جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ استعفوں کی واپسی کے سلسلے میں کوئی پیشرفت نہ ہونے کی صورت میں ثالثی سے ہی دستبردار ہو گئے ہیں اب قائم مقام سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی پر ایم کیو ایم کے استعفے منظور کرنے کیلئے دباؤ بڑھ جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ایم کیو ایم کے استعفوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا۔