پاکستانی ڈرون حملے کی درستگی سے مغربی ماہرین حیرت زدہ ہیں: بی بی سی
لندن (بی بی سی) مسلح ڈرونز کے استعمال سے پیدا ہونے والے جنگی، قانونی اور اخلاقی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ ممالک اسے استعمال کرتے جائیں گے یہ مسائل مزید برھتے جائیں گے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے مسلح ڈرونز کی ٹیکنالوجی کی منتقلی اور اس کی فروخت پر ایک معاہدے کی شکل میں واضح بین الاقوامی مفاہمت ہونی چاہئے، جو اس منفرد قسم کے ہتھیار کے استعمال کی حد مقرر کرے۔ ابھی تک دنیا کے چند ممالک کے پاس ہی ڈرون کو اس طرح استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی اور جاسوسی مہارت تھی۔ امریکہ اور اسرائیل ممکنہ طور پر اس ٹیکنالوجی میں سب سے آگے تھے اور ان کے کچھ دوست ممالک ان کی اس ٹیکنالوجی کو چلانیمیں مدد کررہے تھے۔ لیکن اب مسلح ڈرون کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں پاکستان نے براق نامی ایک مسلح جاسوس طیارہ شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں ایک نشانے پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ جس نفاست اور درستگی کے ساتھ یہ حملہ کیا گیا اس نے مغربی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے، اور خیال کیا جارہا ہے کہ پاکستان کو مہیا کی جانے والی اس ٹیکنالوجی کے پیچھے چین کا ہاتھ ہے۔ جون میں امریکی تھنک ٹینک نیو امیریکن سکیورٹی کے جائزے کے مطابق دنیا کے تقریباً 90 ممالک کے پاس کسی نہ کسی قسم کی ڈرون ٹیکنالوجی ہے جن میں سے 30 ممالک ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلح کرنیکی خاطر یہ ٹیکنالوجی حاصل کرچکے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔