کسانوں کے لئے بلا سود قرضے، کھاد، بجلی سستی ، وزیراعظم نے341 ارب روپے کے زرعی ریلیف پیکج کا اعلان کر دیا
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نمائندہ خصوصی + نیوز ایجنسیاں) وفاقی کابینہ نے 341 ارب روپے کے زرعی ریلیف پیکیج کی منظوری دیدی۔ وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم محمد نوازشریف کی صدارت میں منعقد ہوا۔ زرعی ریلیف پیکیج چار حصوں پر مشتمل ہے جس میں زرعی شعبے کی مالی معاونت، پیداواری لاگت میں کمی، زرعی قرضوں کی فراہمی اور قرضوں کے حصول کو آسان بنانا شامل ہے۔ بعدازاں جناح کنونشن سنٹر میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا اور کہا کہ قومی دفاع پر بہادری سے فیصلے کئے بزدلی سے نہیں، دشمن اب پاکستان سے لڑائی نہیں کرسکتا اسے ہماری ایٹمی صلاحیت کا علم ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ پہلے کیوں نہیں لڑی گئی کراچی آپریشن کا خیال کسی کو پہلے کیوں نہ آیا ہم نے مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنا کیا اور تہیہ کیا کہ تمام برائیوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ ہر معاملے سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہمیں باہر نکالا جائے اور انہیں اندر لاکر بٹھا دیں۔ یہ چاہتے ہیں نواز شریف جائیں ہم آجائیں ان کو کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی خاطر سوچیں جو مشکلات میں ہے۔ وزیراعظم نے کہا فی ایکڑ پیداوار میں اضافے اور پیداواری لاگت میں کمی کے لئے مستقل قومی کمیٹی کام کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا کسان 20کروڑ عوام کیلئے غلہ پیدا کرتا ہے۔ یہ پیکج کسانوں پر احسان نہیں بلکہ حکومت کا فرض اور کسانوں کا حق ہے۔ وزیراعظم نے کہا عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں گر رہی ہیں تیل اور گیس کی قیمیتں کم ہونے پر ہمیں خوشی ہوتی ہے زرمبادلہ کم خرچ ہوتا ہے۔ تین سال پہلے بجلی کا برا حال تھا نہ گیس نہ بجلی نہ امن تھا۔ کراچی کا حال بُرا تھا پاکستان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ 2014 کے آخر تک ڈیفالٹ کر جائے گا واقعی اقتصادی بدحالی تھی۔ انہوں نے کہا کہ چیلنجز کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ پاکستان اور چین نے ملکر اقتصادی راہداری کی بنیاد رکھی۔ پائی پائی کو قوم کی امانت سمجھتے ہیں دن رات قوم کی خاطر محنت کر رہے ہیں۔ غریبوں کسانوں کے بچوں کو بھی تعلیم صحت کی سہولیات ملیں۔ انہوں نے کہا کہ بھاشا ڈیم کیلئے 101ارب روپے سے زمین خریدلی ہے۔ جس پر بھی جلد کام شروع ہوگا۔ وفاقی وزیر سکندر یوسف کی سربراہی میں مستقل کمیٹی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کی نگرانی کرے گی، براہ راست ریلیف کے لئے چاول اور کپاس کے کاشت کاروں کو فوری نقد امداد دی جائے گی۔ زرعی قرضوں پر مارک اپ 2 فیصد کم ہو گا۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے تعاون سے چھوٹے کسانوں کو پانچ ہزار روپے فی ایکڑ نقد امداد ادا کی جائے۔ یہ رقم ساڑھے بارہ ایکڑ تک رقبے پر چاول اور کپاس کاشت کرنے والے کسانوں کو دی جائے گی۔ اِس پر تقریباً بیس ارب روپے خرچ ہوںگے کسانوں کے ساتھ ساتھ چاول کے تاجروں کی مشکلات کم کرنے کا بھی اہم اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدرتی مائع گیس ایل این جی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ یوریا کھاد کی مقامی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ کسانوں کو فصلوں کی انشورنس کی سہولت فراہم ہوگی۔ فصلوں کے لیے اٹھائے گئے قرضوں کی انشورنس کے لئے پریمیئر حکومت خود ادا کرے گی۔ اس پر اڑھائی ارب روپے خرچ آئے گا۔ وفاقی وزارتِ تجارت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایران، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر ممالک کو چاول برآمد کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔ کسانوں کی بنیادی ضرورت کھاد کی قیمتیں کم کرنے کے لیے حکومت 20 ارب روپے کا ایک فنڈ قائم کر رہی ہے جس میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں برابر کی حصے دار ہوں گی۔ پوٹاشیم اور فاسفیٹ کھاد زمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں اہمیت رکھتی ہیں۔ اِن دونوں کھادوں کی قیمتوں میں فی بوری کم از کم پانچ سو روپے کمی ہو گی۔ اِس کے علاوہ یوریا کھاد کی قیمتیں مستحکم رکھنے کے لیے حکومت ہر سال سرکاری خرچ پر یوریا درآمد کرتی ہے جو کسانوں کو سستے داموں فراہم کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اس کے لیے 25 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مقامی طور پر کھاد ساز کارخانوں نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے دو سو روپے فی بوری تک اضافہ کر دیا تھا۔ جس سے ربیع کی فصل کی پیداوار متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔ اس سلسلے میں حکومت گیس کمپنیوں اور کھاد ساز کارخانوں سے بات چیت کر رہی ہے تاکہ مقامی کھاد کی قیمتیں پرانی سطح پر واپس لائی جا سکیں۔ یعنی ان قیمتوں میں 200روپے فی بوری کا جو اضافہ حالیہ دنوں میں کیا گیا ہے وہ واپس ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے بارہ ایکڑ یا اس سے کم زمین رکھنے والے کسانوں کو سولر ٹیوب ویل نصب کرنے یا موجودہ ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر تبدیل کرنے کے لیے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے۔ اِن قرضوں پر سات سال کا مارک اَپ وفاقی حکومت ادا کرے گی، جس پر ساڑھے چودہ ارب روپے خرچ ہوں گے۔ رواں مالی سال میں 30جون 2016ء تک زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی کا رعایتی نرخ 10.35روپے پیک آور کے لیے مقرر کیا گیا ہے اور 8.85روپے آف پیک آور کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرانے بل کی ادائیگی 31دسمبر 2015ء تک کی جا سکے گی۔ بجلی کے نرخوں میں رعایت فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت سات ارب روپے ادا کرے گی۔ ان بلوں پر سیلز ٹیکس کی ادائیگی صوبائی حکومتیں کریں گی، انہوں نے کہا کہ جو زمین دستیاب ہے اس کی پیداواری صلاحیت سے استفادہ کرنے کے اور اسے بڑھانے کے لیے جدید زرعی مشینری مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں زرعی مشینری کی درآمد کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ کی شرح 43 فیصد بن جاتی ہے۔ موجودہ مالی سال میں زرعی مشینری کی درآمد پر تمام محصولات کو کم کر کے 9فیصد کی شرح کر دی گئی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سال 2015-16کے لیے Rice Millers کوTurn-over Tax میں مکمل چھُوٹ دی جائے گی۔ زرعی اجناس پھلوں، سبزیوں اور مچھلی کی تجارت میں کولڈ چین کی صنعت اور سہولت کی حوصلہ افزائی کے لیے انکم ٹیکس پر تین سال کی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زمین کی تیاری، فصل کی کاشت، کٹائی اور ذخیرہ کرنے آب رسانی اور نکاسیِ آب میں استعمال ہونے والی مشینری کی درآمد اور مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا گیا۔ حلال گوشت کا پیداواری یونٹ لگانے والوں کو چار سال کے لیے انکم ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے ۔ اس کے لیے انہیں 31دسمبر2016ء سے پہلے ’’حلال‘‘ کی باقاعدہ تصدیق حاصل کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ تازہ دُودھ اور پولٹری سپلائی میں بھی کچھ شرائط پوری کرنے پر وِد ہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔ اس میں مچھلی کی سپلائی کو بھی شامل کر لیا گیا۔ حکومت اس حوالے سے پندرہ ارب روپے کے اخراجات برداشت کرے گی۔ چھوٹے کسانوں کو قرضہ دینے والے کمرشل اور مائیکرو فنانس بینکوں کو زرعی قرضے پر 50 فیصد نقصان کی گارنٹی دینے کی سکیم بنائی گئی ہے۔ جس کے تحت ہر سال پانچ ایکڑ نہری اور دس ایکڑ بارانی ملکیت والے تین لاکھ کسان گھرانوں کو ایک لاکھ روپے تک بغیر ضمانت قرضے کی سہولت حاصل ہو گی۔ انہوں نے چاول کی خریداری کے لیے جو قرضے حاصل کیے تھے ان کا چونتیس ارب روپیہ واجب الادا ہے۔ اس قرضے کی با سہولت واپسی کے لیے حکومت، سٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں نے مل کر خصوصی طریقہ کار وضع کیا ہے جس کے تحت قرض کی مدت میں اضافہ ہو گا اور ادائیگی30جون 2016ء تک مؤخر ہو جائے گی۔ 2013ء میں جب ہماری حکومت آئی تھی تو بینکوں کے ذریعے زرعی شعبے کو تین سو ارب روپے قرض کی سہولت دی جارہی تھی۔ ہم نے 30جون 2015ء تک اسے بڑھا کر پانچ سو ارب کر دیا ہے اور اس مالی سال میں مزید ایک سو ارب کا اضافہ کر دیا ہے۔ سو ارب روپے کے اضافی قرضے ساڑھے بارہ ایکڑ رقبہ رکھنے والے کسانوں کو دیئے جائیں گے۔ حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی کوشش ہے کہ زرعی قرضوں کے مارک اَپ ریٹ میں دو فیصد کمی لائی جائے۔ زرعی ترقیاتی بینک اور کمرشل بینک ملک بھر میں کسانوں کو قرض فراہم کرنے کے لیے وَن وِنڈو سہولت فراہم کرے گی۔ زرعی اراضی کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ اس لیے پیداواری یونٹ کی ویلیو دو ہزار روپے سے بڑھا کر چار ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا اس پیکج سے پاکستان بھر میں کسانوں کو خاص طور پر چھوٹے کسانوں کو 147۔ارب روپے کا براہ راست فائدہ ہو گا، جب کہ زرعی شعبے کو 194ارب روپے کے اضافی قرضے میسر آ سکیں گے۔ دیامر بھاشا، داسو اور بونجی ڈیمز کے منصوبہ جات پر تیز رفتاری سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو نہیں چاہتے کہ کسانوں کیلئے پیکج کیلئے اعلان کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف بعض وزارتوں کے معاملات سے ناخوش ہیں، انہوں نے اہم اجلاس میں کہا کہ ادارے ایمانداری سے کام کریں تو لوگ حکومت کیخلاف احتجاج نہ کریں۔ وزیراعظم نے بعض وزراء کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور آئندہ اجلاس میں وزارتوں کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ وزراء عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر کام کریں۔ دریں اثنا یوم جمہوریت کے موقع پر وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 15 ستمبر کو اقوام متحدہ کے تحت یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال یو این او اس دن کو سول سوسائٹی کے لئے جگہ کے طور پر منا رہا ہے۔ ہماری حکومت نے یو این او کے اس منشور کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنایا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ کسی جمہوری حکومت میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں آ رہا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف سے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور اور قومی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں میں ایم کیو ایم کی پارلیمنٹ میں واپسی اور پیپلزپارٹی کے ساتھ مفاہمت کی سیاست کے امور بھی زیربحث آئے۔