پشاور سکول میں قتل عام جاری تھا‘ میں نے چار بچوں کی جان بچائی: محمد ابراہیم
پشاور (نیٹ نیوز/ بی بی سی) پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے میں گولیاں لگنے سے مفلوج ہونے والا بچہ برطانیہ میں آپریشن کے بعد معجزانہ طور پر صحت یاب ہو رہا ہے۔ 13 سالہ محمد ابراہیم کو پاکستان میں ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ دوبارہ چل نہیں سکیں گے۔ محمد ابراہیم ابراہیم گزشتہ ماہ آپریشن کے لیے لندن آئے تھے اب جلد ہی ان کو ہسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔ نو ماہ قبل منگل کی صبح جب وہ اپنی کلاس میں بیٹھا اپنے اساتذہ کی باتیں سن رہا تھا عین اسی وقت سات مسلح افراد سکیورٹی اہلکاروں کا روپ دھارے آرمی پبلک سکول میں داخل ہو رہے تھے۔ اپنے جسموں پر بارودی مواد باندھے ان افراد کے ذہن میں صرف ایک مقصد تھا کہ سکول میں موجود ہر بچے عورت اور مرد کو جان سے مارنا ہے۔ سکول پر ہونے والے حملے کے بارے میں محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ ’جو کچھ ان روز ہوا میں کبھی اسے نہیں بھول سکتا۔ ہم آڈیٹوریم میں بیٹھے تھے سوالات پوچھ رہے تھے پھر ہم نے باہر گولیاں چلنے کی آواز سنی۔ دہشت گردوں نے اندر داخل ہو کر لوگوں کو مارنا شروع کر دیا، ہماری استاد کو زندہ جلا دیا گیا۔‘ محمد ابراہیم نے بتایا کہ جس وقت قتلِ عام جاری تھا انہوں نے چار بچوں کو آڈیٹوریم سے نکال کر ان کی جان بچائی۔ ان کے مطابق پھر انہوں نے اپنے دوست حمزہ کی آواز سنائی دی جو انہیں بلا رہا تھا کہ ’او میرے بھائی مجھے بچاؤ‘۔ ’جب میں نے ان کا ہاتھ پکڑا تو عین اس وقت مجھے کمر میں اور اس کو سر میں گولی ماری گئی۔‘ حمزہ نے محمد ابراہیم کے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ انہوں سے بتایا کہ اس کے بعد وہ بیہوش ہوگئے اور جب ان کی آنکھ کھلی تو وہ ہسپتال کے بستر پر تھے اور ان کا کمر سے نیچے کا جسم مفلوج ہو چکا تھا۔ پشاور اور راولپنڈی میں ڈاکٹروں نے ان کے خاندان والوں کو بتایا کہ ان کا علاج ممکن نہیں اور اب وہ کبھی چل نہیں سکیں گے۔ ان کے والد شیر خان کا کہنا تھا کہ ’اسے دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میرے جسم سے جان نکل گئی ہو۔ وہ میری زندگی کے سخت ترین نو مہینے تھے۔‘ انہوں نے پاکستانی میڈیا پر اپنے بیٹے کیلئے مدد کی اپیل کی جس کی وجہ سے وہ عمران خان جیسی نامور شخصیات کی حمایت حاصل کر سکے۔ بالآخر وہ اتنے پیسے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ محمد ابراہیم کا علاج لندن کے ایک ہسپتال سے کرا سکیں۔ نیوروسرجن عرفان ملک بتاتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار ہسپتال آیا تھا تو وہ بہت سہما ہوا تھا، اس نے گزشتہ چند ماہ بستر پر گزارے تھے۔ وہ بہت کمزور تھا اور ہل بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی۔‘ 6 گھنٹے جاری رہنے والے آپریشن میں ڈاکٹر ملک اور ان کی ٹیم محمد ابراہیم کی ریڑھ کی ہڈی کے متاثرہ حصے کو دوبارہ جوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد جو ہوا اس نے ڈاکٹر ملک کو بھی حیران کر دیا۔ ڈاکٹر ملک کہتے ہیں کہ ’سرجری کے عین ایک ہفتے کے بعد محمد ابراہیم کھڑا ہو گیا اور اس نے قدم اٹھانا اور چلنا شروع کر دیا۔ ہم اتنے بہترین نتیجے کی توقع نہیں کر رہے تھے، یہ ایک معجزہ تھا۔‘ آپریشن کو ہوئے دو ہفتے سے بھی کم وقت گزرا ہے اور محمد ابراہیم ہسپتال سے جانے کیلئے تیار ہے لیکن ابھی اس نے مکمل صحت یابی کیلئے طویل سفر طے کرنا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی صحت میں بہتری چاہتے ہیں اور انکی خواہش ہے کہ وہ برطانیہ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان واپس جا کر فوج میں شمولیت اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مجھے دوسری زندگی ملی ہو۔‘ اگرچہ ان کی جسمانی طاقت میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے لیکن وہ جس نفسیاتی کرب سے گزر رہا ہے ان کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں۔ ’میرا غصہ کم نہیں ہو رہا، میرے سکول میں معصوم بچوں کو مارا گیا۔ ان کا کیا جرم تھا؟‘ اپنے بیٹے کی آنکھوں سے آنسوں پونچھتے اور ان کے ماتھے کو چومتے ہوئے ان کی ماں کا کہنا تھا کہ ’ میں اپنے بیٹے کو دوبارہ چلتے ہوئے دیکھ سکتی ہوں۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزار سکے گا۔‘
ابراہیم