لاڑکانہ: پیپلزپارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں ہرانے کے لئے10 جماعتوں کا اتحاد
لاڑکانہ (نیٹ نیوز/ بی بی سی) سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں آئندہ بلدیاتی انتخابات میں سابق صدر آصف علی زرداری کے سیاسی طرزعمل اور طورطریقوں نے ان کے مخالفین کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں دس جماعتوں اور شخصیات نے مل کر ’’لاڑکانہ عوامی اتحاد‘‘ کے نام سے سیاسی اتحاد تشکیل دیا ہے جس کا واحد مقصد زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی زیر سرپرستی حکمران پیپلزپارٹی کو ہرانا ہے۔ لاڑکانہ عوامی اتحاد کی قیادت عباسی خاندان کر رہا ہے جس نے پاکستان پیپلزپارٹی سے راہیں جدا کرکے صفدر عباسی اور ناہید خان کی قیادت میں پیپلزپارٹی ورکرز کے نام سے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔ دیگر جماعتوں میں مسلم لیگ فنکشنل‘ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ مجلس وحدت المسلمین اور ممتاز بھٹو سمیت دس سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ اس اتحاد کے روح رواں منور عباسی کا کہنا ہے پیپلزپارٹی نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ نہیں کیا اس لئے یہ اتحاد لاڑکانہ کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے بنایا گیا ہے۔ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں ہر یونین کونسل میں پیپلزپارٹی سے مقابلہ کیا جائے گا۔ ضلع لاڑکانہ میں 47 یونین کونسلوں‘ ایک ضلعی کونسل اور چھ میونسپل کارپوریشنز اورکمیٹیوں پر مشتمل ہے اور یہاں چھ لاکھ 22 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ تجزیہ کار معشوق اوڈدھانو کاکہنا ہے عوامی اتحاد میں شامل ماضی میں بھی پیپلزپارٹی کے سیاسی مخالف رہے ہیں‘ تاہم ممتاز بھٹو‘ عباسی خاندان اور شفقت انڑ کا اثر صرف اپنی یونین کونسلز تک ہی محدود ہے۔ گزشتہ سات برسوں سے پیپلزپارٹی اقتدار میں ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہی ان کے کام آئیں گے۔ تجزیہ کار الطاف پیرزادہ کا کہنا ہے لاڑکانہ میں ترقی صرف پیپلزپارٹی کے ادوار میں ہوئی۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں لاڑکانہ سمیت 15 اضلاع میں چنائو ہوگا مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کیلئے زیادہ سیاسی سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں۔ لاڑکانہ عوامی اتحاد کے رہنما منور عباسی کا کہنا ہے انہیں پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد میں نہیں بنایا بلکہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس اتحاد میں جو لوگ اکٹھے ہوئے ہیں‘ ان میں سوائے ممتاز بھٹو کے کسی کا کوئی ذاتی اختلاف نہیں۔ لاڑکانہ اتحاد میں شامل اکثر جماعتوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں بھی اتحاد کیا تھا‘ لیکن یہ منظم اور مؤثر ثابت نہیں ہو سکا تھا۔