دہشت گرد ہر قسم کے ہتھیاروں‘ خودکش جیکٹوں اور مواصلاتی آلات سے لیس تھے
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) آپریشن ضرب عضب سمیت دہشت گردوں کے خلاف تمام فوجی کارروائیوں میں اپنے کلیدی کردار کی وجہ سے پاکستان ائرفورس ایک دہائی سے دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے۔ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب اور پشاور سے ملحق خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر ون اور خیبر ٹو میں پاک فضائیہ نے درستگی کے ساتھ حملے کرکے ان ایجنسیوں کے دورافتادہ علاقوں میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی، ان کے ٹھکانے تباہ کئے اور زمینی فوجی کارروائی کی راہ ہموار کی۔ اسی کے باعث بڈھ بیر، اس سے پہلے کامرہ ائربیس اور سرگودھا سمیت ملک کے تمام علاقوں میں فضائیہ کے بیسز، ملازمین، اثاثوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ پشاور میں فضائیہ کے دو ائربیس ہیں ایک نان آپریشنل اور ایک آپریشنل، دونوں کے ساتھ رہائشی علاقے بھی ہیں اور دہشت گردی کی وارداتوں کے خطرہ کے پیش نظر یہاں فول پروف انتظامات کرنے کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور دہشت گرد گارڈ روم کی ہلکی سی مزاحمت کے بعد احاطہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بڈھ بیر تین اطراف سے شورش زدہ علاقے میں گھرا ہوا ہے۔ یہاں سے دہشت گرد مسلسل پولیس پر حملے کرتے رہے ہیں اس کے باوجود ائرفورس نے یہاں کماحقہ حفاظتی بندوبست نہیں کئے۔ اگر ائرفورس کے گارڈز پر ہی انحصار رہتا تو ناقابل تصور کشت و خون ہوتا۔ یہ تو سریع الحرکت کمانڈو فورس تھی جس نے دہشت گردوں کی مزید پیش قدمی سے پہلے ہی گھیر لیا۔ یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ اب دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تین سطحوں پر فورس تیار کی گئی ہے۔ پہلا حصار سریع الحرکت کمانڈو فورس کا ہے۔ یہ فورس ہر مقامی فوجی فارمیشن کا حصہ ہوتی ہے۔ اہم بات یہ کہ اب سخت تربیت، لگن اور مورال کے باعث اس فورس کی تشکیل کے ذریعہ دہشت گردی کی وارداتوں کے جواب میں فوری جواب کی استعداد حاصل کر لی گئی ہے۔ دوسرے حصار میں لائٹ کمانڈو بٹالین شامل ہے۔ یہ بھی ہر فوجی فارمیشن کا حصہ ہوتی ہے۔ یونٹ کے جوانوں اور افسروں کو کمانڈو تربیت دے کر یہ فورس تیار کی جاتی ہے۔ تیسرے حصار میں مشہور زمانہ ایس ایس جی کے کمانڈوز شامل ہیں اول الذکر دو فورسز کی تشکیل سے پہلے ہر واردات میں ایس ایس جی کو بلانا پڑتا تھا لیکن اب سریع الحرکت کمانڈو فورس سب سے پہلے پہنچتی ہے۔ بڈھ بیر دہشت گردوں کے حملہ کے دوران فوج کی سریع الحرکت کمانڈو فورس نے بیس کے اندر ان کے داخلہ سے پہلے ہی موقع پر پہنچ کر کارروائی شروع کر دی اور 13دہشتگردوں کو ہلاک کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ دہشت گردوں کو یہ فوقیت حاصل تھی کہ وہ مکمل منصوبہ بندی کے بعد یہاں پہنچے، اسلحہ، خودکش جیکٹوں، مواصلاتی آلات سمیت سبھی ہتھیاروں سے پوری طرح لیس تھے۔ لیکن نہتے نمازیوں کی شہادت کے علاوہ کمانڈوز نے دہشت گردوں کو اس فوقیت کا فائدہ نہیں اٹھانے دیا اور سب کو ڈھیر کر دیا۔
منصوبہ بندی