ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے چوری ہونیوالا جانور بازیاب
لاہور(چودھری اشرف) پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ محکمہ لائیوسٹاک پنجاب کی کوالٹی کنٹرول سے حاصل ہونے والی ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ پر چھ ماہ قبل چیچہ وطنی سے چوری ہونے والے لاکھوں روپے مالیت کے جانوروں کی باز یابی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فروری 2015ءمیں چیچہ وطنی کے چک 11-L/ 15 کے مراتب علی کے 12 قیمتی جانور چوری ہو گئے تھے جن کی مالیت 30 لاکھ روپے کے قریب بنتی ہے۔ مراتب علی نے پولیس کی مدد سے اپنے جانوروں کی کھوج کا کام جاری رکھا۔ چھ ماہ بعد مراتب علی کو اس وقت کامیابی ملی جب رواں ماہ ستمبر کے شروع میں چوری ہونے والے جانوروں میں سے ایک عدد بھینسا لاہور کے شاہ پور کانجراں کی مویشی منڈی سے برآمد ہو گیا جس پر جانوروں کے مالک اور منڈی میں فروخت کیلئے لانے والے شخص کے درمیان تکرار کے بعد معاملہ پنچائیت میں گیا، جس میں معاملے کا حل نہ نکل سکنے پر بھینسا کے مالک نے محکمہ لائیوسٹاک پنجاب سے رابطہ کیا کہ وہ اپنے جانور کا اصل مالک ہے لہٰذا اس کے جانور کا ڈی این اے ٹیسٹ کرا کے اس کی ملکیت کو ثابت کیا جائے۔ جس پر لاہور میں قائم ڈائیگناسٹنگ لیبارٹری میں بھینسے سمیت چار جانوروں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا جس میں ثابت ہو گیا کہ مویشی منڈی سے برآمد ہونے والا بھینسا چوری کا ہی ہے۔ سیکرٹری لائیوسٹاک پنجاب نسیم صادق سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ محکمہ نے جانوروں کی نسل کشی کے لیے سیمنز کی جانچ پڑتال کیلئے کوپر روڈ پر واقع دفتر میں لیبارٹری قائم کر رکھی ہے جہاں جانوروں کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ محکمہ لائیوسٹاک پنجاب نے اپنے تمام فارمز کے جانوروں کا ڈی این اے ٹیسٹ شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کی تاریح میں پہلا موقع ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے جانوروں کی چوری پکڑ گئی ہے۔ امید ہے کہ مذکورہ شخص کے باقی جانور بھی پولیس کی مدد سے برآمد ہو جائیں گے۔ انہوںنے کہا ابتدا میں ٹیسٹ کیلئے آنے والے جانوروں کی تعداد کم ہونے کی بنا پر ٹیسٹ تھوڑا مہنگا ہو رہا ہے تاہم جب بڑی تعداد میں لوگ اپنے جانوروں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانا شروع کر دینگے تو اس کی لاگت بھی کم ہو جائیگی۔
جانور / بازیابی