باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے
کبھی کبھی میرے کالم میں کئی کالم جمع ہو جاتے ہیں۔ مجھے نوائے وقت میں ”سرراہے“ بہت پسند ہے۔ نوائے وقت کا اداریہ بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرتا ہے۔ سرراہے میں سیاسی موضوعات بھی ہوتے ہیں اور غیرسیاسی بھی ہوتے ہیں۔ سیاست کی گرم بازاری سے لوگ تنگ آ چکے ہیں۔ زندگی سیاست کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ ”سرراہے“ مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی نے بھی لکھا ہے۔ اس پر لکھنے والے کا نام نہیں ہوتا، پھر بھی پتہ چل جاتا ہے۔ نوائے وقت اداریہ اخبار کا قومی اظہار ہوتا ہے مگر لکھنے والے کے اسلوب کا پتہ دیتا ہے۔
ایک شخص تھا نور محمد.... اس نے نواب اکبر بگتی کے قبیلے کے ایک قاتل کو گرفتار کیا جبکہ اسے گرفتار کرنے کیلئے کوئی تیار نہ تھا۔ جب اکبر بگتی گورنر بلوچستان بنے تو نورمحمد نے استعفیٰ دیدیا، بگتی صاحب نے قبول نہ کیا۔ انہوں نے اس پولیس والے کی تعریف کی اور ترقی بھی دی۔ نور محمد وردی میں ہوتا اور نوائے وقت پڑھتا تھا۔ بلوچستان کے پہاڑوں پر اکبر بگتی بھی نوائے وقت کا انتظار کرتا تھا۔ کسی نے حیرت کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ اس اخبار میں پاکستان بولتا ہے۔ نور محمد نے تو کہا کہ میں ”نوائے وقتیا“ ہوں۔
پشاور میں دہشت گردوں نے بھی وردی پہنی ہوئی تھی۔ انہوں نے ائرفورس کی رہائشی کالونی پر حملہ کیا۔ یہ وردی فوجی بھائیوں والی تھی۔ انہیں ہماری پولیس کی وردی والے چیک نہیں کرتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں چیک نہیں کرتے۔ اگر وہ واقعی وردی والے ہیں تو انہیں بڑی محبت سے سکیورٹی کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دینا چاہئے۔ باوردی شخص کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔ یہ ہمارے سپہ سالار آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ثابت کر دکھایا ہے۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی اٹل ہے۔ ”اٹل“ کا لفظ بھارتی حکمرانوں کے لفظ ”اٹوٹ“ کا جواب ہے۔ پاکستانی قوم اپنے سپہ سالار پر اعتبار کرتی ہے اور ان سے پیار کرتی ہے۔ پیار کا تعلق اعتبار کے ساتھ بہت گہرا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور قربانی کے بعد ان واقعات میں کمی آئی ہے۔ اس سے لوگ زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے کئی ایک جیسے واقعات لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ میں اس حوالے سے اگلے کالم میں تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں۔
برادرم نصرت جاوید نے دانشور کالم نگار ایاز امیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ لگاتار ملاقاتوں کے حوالے سے لکھا ہے جو عوام میں پسند نہیں کی جا رہی ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ ملتے ہیں تو کیا بات چیت کرتے ہیں۔ سیاست اور فوج میں کیا باہمی دلچسپی کے امور ہیں جو زیربحث آتے ہیں۔ مودبانہ عرض ہے کہ کیا اس بات چیت میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے بارے میں کسی مشترکہ پالیسی کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کا ذکر تو بیانات میں ہوتا رہتا ہے کہ سیاستدان صرف بیانات دیتے ہیں۔ یہی خبر آتی ہے کہ جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں اس حوالے سے اپنے کالموں میں بہت پہلے لکھ چکا ہوں۔ ایک مصرعہ پھر بھی برادرم نصرت جاوید کی خدمت میں عرض ہے جسے سب لوگ پڑھ سکتے ہیں....
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
ریحام خان کے کزن نے الزام لگایا ہے کہ سب کچھ ریحام خان کے خلاف جمائما کروا رہی ہے، اس سے تو لگتا ہے کہ جمائما نے الطاف حسین سے تربیت لی ہے۔ عمران خان نے اس کی تردید کی ہے۔ اب جمائما عمران خان کی بیوی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے وہ ریحام خان کی سوکن نہیں ہے۔ یورپ میں سوکن ہونے کی حیثیت سے تنازعات ختم ہو چکے ہیں مگر عمران خان کے حوالے سے کئی عورتیں اپنے آپ کو ریحام خان کیلئے سوکنوں سے بڑھ کر کچھ سوچتی ہیں مگر ریحام خان کے کزن کو کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس طرح کا بیان دے سکے جبکہ یہ بات اتنی نہیں بڑھی ہے اور ریحام خان کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی جا رہی ہے۔ صرف عمران خان نے ریحام کی سیاسی سرگرمیوں کو بڑھنے نہ دینے کے حوالے سے بیان دیا ہے۔ یہ بات بھی نہ ہوتی اگر ہزارہ میں تحریک انصاف کا امیدوار جیت جاتا تو اس طرح کی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ ہزارہ میں ریحام خان کی تقریر دلچسپ تھی۔ عمران خان کے علاوہ کون اچھی تقریر تحریک انصاف میں کر سکتا ہے۔ ایک شیخ رشید ہے اور وہ بھی تحریک انصاف میں نہیں ہے۔ ریحام کو سیاست میں آنے دو اور تقریریں کرنے دو۔ اس طرح عمران خان کے علاوہ بھی کوئی ہو گا یا ہو گی جس پر لوگ متفق ہو سکتے ہیں۔ جمائما کے ساتھ عمران خان نے زیادتی کی تھی ورنہ اس نے اپنے نام کے ساتھ خان کا لفظ ریحام خان کے ساتھ عمران کی شادی کے بعد ہٹایا کہ ریحام خان کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ اب بھی غلط فہمی تو ریحام کے کزن کو ہو رہی ہے۔ عمران خان نے اپنے کزنوں کو بری طرح نظرانداز کیا ہے بالخصوص حفیظ اللہ خان تو زمان پارک والا گھر چھوڑ کر کہیں اور جا چکا ہے۔ انعام اللہ خان کو میانوالی سے تحریک انصاف کا ٹکٹ مل جاتا تو وہ جیت جاتا۔ اب وہ بھکر سے ایم پی اے ہے مگر اس کے لئے اپنے بھائی نجیب اللہ خان جیسا ہونا مشکل ہے؟ انعام اللہ خان کو چاہئے کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ اپنے طرزعمل کو خاص طور پر ٹھیک رکھے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ریحام خان کے کزن بنی گالا پر قابض ہو چکے ہیں اور ریحام خان کے ذاتی معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی سرگرم سیاستدان عندلیب عباس ریحام خان کیلئے اچھے جذبات کا اظہار کر رہی تھی۔ لگتا ہے کہ عمران خان کے بعد اب اس کی جانشین ریحام خان ہے۔ برادرم شاہ محمود قریشی اس حوالے سے بھی توجہ کریں۔ جاوید ہاشمی کو تو نکال باہر کیا ہاشمی صاحب خود بھی نکلنے کیلئے آمادہ تھے۔ وہ ریحام خان کیلئے کیا کریں گے؟
ایک بات مجھے عندلیب عباس کی پسند آئی.... ”کامیاب آدمی اور بڑا آدمی وہ ہے جو مشکلات سے گھبراتا نہیں ہے کہ نمایاں لوگ مشکلات میں سے نمودار ہوتے ہیں۔ آسانیاں کسی آدمی کیلئے مددگار نہیں ہوتیں“۔
مرزا غالب کا ایک مصرعہ بہت عوامی ہو گیا ہے، وہ عندلیب عباس کی خدمت میں عرض ہے....
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
ابوالکلام آزاد کا یہ جملہ مجھے برادرم آغا مشہود شورش کاشمیری نے بتایا ہے.... ”کامیاب زندگی کیلئے کچھ غلطیاں بھی کرنا پڑتی ہیں“۔ تو پھر شورش کاشمیری کا یہ شعر بھی سن لیں....
شورش میرے خلاف زمانہ ہوا تو کیا
کچھ لوگ اس جہاں میں خدا کے خلاف ہیں