روس سے جدید لڑاکا طیارے ایس یو 35-E کیلئے مذاکرات‘ بھارت اور مغربی ملکوں میں تہلکہ مچ گیا
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان اور روس کے درمیان جدید لڑاکا طیارے ایس یو 35 ای کی خریداری کے مذاکرات نے بھارت اور مغربی ملکوں میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ صف اول کے دفاعی جریدے جینز ڈیفنس نے مجوزہ سودے پر تفصیلی مضمون چھاپا ہے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ممکنہ سودے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا ہے جسے بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا جبکہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی پاکستان روس دفاعی تعاون اور اس سودے کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک امریکی اخبار نے یہ تک لکھ دیا ہے کہ روس نے پاکستان کو ایس یو 35 فراہم کئے تو امریکہ بھارت کو پانچویں جنریشن کا طیارہ ایف 35 فراہم کرے گا۔ پاکستان ائر فورس کے ذرائع نے روس کے ساتھ مذکورہ طیارہ کے حصول کیلئے بات چیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملکی دفاع کی ضروریات کے پیش نظر پاکستان کسی بھی ملک سے جدید طیارے حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان کیلئے دو انجنوں والے نئے لڑاکا طیارے کا حصول اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ بھارت فرانس سے رافیل طیارے خرید رہا ہے۔ اس سودے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے موجود عدم توازن مزید بڑھ جائے گا۔ طاقت کے توازن کے اس تناسب کے علاوہ اب ایسے طیارے کی ضرورت ہے جو پاکستان کی فضائی برتری قائم رکھ سکے۔ کئی دہائیوں تک ایف سولہ نے یہ فرض عمدگی سے نبھایا مگر اب پاکستان کو ایک انجن والے ایف سولہ کے بجائے دو انجنوں والے ایسے طیارے کی ضرورت ہے جو زیادہ طاقتور ہو اور دشمن کے علاقہ میں گھس کر دور تک مار کر سکے جو چوتھی اور پانچویں جنریشن کے طیاروں کی مشترکہ خصوصیات کا حامل ہو۔ اس ذریعہ کے مطابق چینی جے ٹن اب بھی پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے جس کی تمام تر آزمائشیں مکمل ہونے کے بعد اسے پاکستانی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی بات کی جائے گی۔ روسی ساختہ ایس یو 35 ای، سودے کے مالی اور فنی پہلوﺅں پر مذاکرات مکمل ہونے کے بعد کم عرصہ میں پاکستان کو دستیاب ہو سکتا ہے۔ اس کی قیمت، دیکھ بھال کے اخراجات، فالتو پرزے، عملہ کی تربیت کی لاگت کسی بھی مغربی ملک کے طیارے سے خاطر خواہ کم ہو گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روسی طیارہ آپریٹ کرنے کی صورت میں پاکستان کو اپنے حریف کی فضائی طاقت کی استعداد کا زیادہ اندازہ ہو سکے گا۔ اس سودے کی تکمیل سے روس اور پاکستان کے درمیان دفاعی، سفارتی اور معاشی تعلقات کو نئی جہت ملے گی۔ طیارے میں دو یو ایف اے، اے ایل 31 ایف ٹربو فین انجن نصب ہیں۔ طیارے میں ری فیولنگ کی سہولت موجود ہے۔ یہ طیارہ اٹھارہ ہزار میٹر کی بلندی پر اڑ سکتا ہے۔ یہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر اور ری فیولنگ کے بعد ساڑھے چار ہزار کلومیٹر تک پرواز کرتا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار دو ہزار تین سو نوے کلومیٹر ہے۔ طیارہ میں اسلحہ ذخیرہ کرنے کے بارہ مقامات ہیں۔ ایس یو تھرٹی فائیو کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے طیارہ شکن میزائلوں، فضا سے زمین تک مار کرنے والے میزائلوں، شارٹ رینج انفرا ریڈ گائیڈڈ میزائلوں سے لیس کیا گیا ہے۔ ایس یو تھرٹی فائیو بحری مقاصد کیلئے بھی عمدگی سے استعمال کیا جا سکتا ہے جہاز شکن کم اور دور فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھی اس میں نصب ہیں۔ طیارے میں متعدد اقسام کے گائیڈڈ بم لوڈ کئے جاتے ہیں۔ طیارہ میں نصب نظام کی بدولت مکمل درستگی کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ طیارہ کو اسی ایم ایم سے لے کر دو سو چالیس ایم ایم کے راکٹوں سے بھی لیس کیا جا سکتا ہے۔ طیارے کے پروں میں خودکار گنیں نصب ہیں جو فضاءاور زمین پر ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ طیارہ میں ایسے راڈار نصب ہیں جو نوے کلو میٹر کے فاصلہ تک دشمن کے جہاز اور میزائل کا سراغ لگانے کے علاوہ چار سو کلومیٹر کے فاصلے سے ہدف کو دیکھ سکتے ہیں۔ طیارہ میں ایسے الیکٹرانک آلات نصب ہیں جو دشمن کے جامنگ آلات کو ناکارہ بنا سکتے ہیں۔ یہ سودا طے پانے کی صورت میں پاک فضائیہ کا بیڑہ دو اقسام کے مکمل نئے جہازوں یعنی ایس یو تھرٹی فائیو اور جے ایف تھنڈر کے علاوہ اپ گریڈ کئے گئے امریکی ایف سولہ، فرانسیسی میراج طیاروں پر مشتمل ہو گا۔ ایک پاکستانی سرکاری اہلکار نے آئی ایچ ایس جینز سے اس بات کی تصدیق کی کہ پاک فضائیہ کو دو انجن والے لڑاکا طیاروں کی ضرورت ہے جو JF-17 تھنڈر طیاروں کی نسبت دشمن کے علاقے میں دور تک جا سکیں۔ اس مقصد کیلئے اس نے جدید ترین روسی ایس یو 35 (سخوئی) طیاروں کی ممکنہ خرید پر بات کی ہے۔ اس وقت پاک فضائیہ کے پاس امریکی ایف 16، فرانسیسی مگ 5S، چینی ایف7 اور چین کی مدد سے تیار ہونے والے جے ایف 17 طیارے موجود ہیں۔ آئی ایچ ایس جینز کے مطابق اس سے قبل پاکستان اور روس کے درمیان MI-35M ٹرانسپورٹ و لڑاکا ہیلی کاپٹرز کی خریداری کا معاہدہ ہوا تھا اور اب اس کنٹریکٹ میں توسیع ہو سکتی ہے۔ میڈیا میں روس امریکہ اور چین میں پانچویں نسل کے ٹیسٹ کیے گئے پاک ایف اے، ایف 35 اور جے 20 کا ذکر ہو رہا ہے مکمل آپریشنل ایس یو 35 اس مرحلے پر زیادہ قابل اعتماد معلوم ہو رہے ہیں۔ ایس یو 35 ” 4++ جنریشن“ کے طیارے ہیں جن میں ففتھ جنریشن ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے اور یہ دوسرے فورتھ جنریشن طیاروں سے اعلیٰ ترین ہیں۔ ایس یو 35 نیٹو نے جنہیں فلینکر ای کا نام دیا ہے ملٹی رول لڑاکا طیارے ہیں جو بیک وقت کئی فضائی اہداف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔