گجرات فسادات کا کیچڑ پھر مودی کے منہ پر، ہائیکورٹ میں مقدمہ کی سماعت شروع
احمد آباد (رائٹرز) بھارتی ریاست گجرات کی ہائیکورٹ نے انتہا پسند ہندو وزیراعظم نریندر مودی اور دیگر 58 افراد کیخلاف 2002ء کے مسلم کش فسادات میں ملوث ہونے کے کیس کی سماعت شروع کردی ہے۔ یہ مقدمہ ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں گھر سے گھسیٹ کر باہر گلی میں سرعام تلواروں کے وار کرکے شہید کئے جانیوالے مسلمان وکیل احسان جعفری کی 76 سالہ بیوہ ذکیہ جعفری نے عدالت میں دائر کیا ہے۔ ذکیہ کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اس کیس کی سماعت میں مہینوں لگ سکتے ہیں اور معاملہ سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے کیس میں نریندر مودی کو مرکزی ملزم ٹھہرایا گیا ہے جو اس وقت گجرات کے وزیراعلی اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ اس وقت صوبائی وزیر داخلہ تھے۔ اس مقدمے کی تیاری اور عدالت تک لیجانے میں انسانی حقوق کی ممتاز کارکن ’’ٹریسٹا سٹیولینڈ‘‘ بھی ذکیہ جعفری کی مدد کررہی ہیں۔ ٹریسٹا نے گجرات فسادات سے متاثرہ کئی مسلمانوں اور ہندوئوں فسادات میں ملوث سرکاری حکام، پولیس اہلکاروں سے ملاقاتیں کرکے ان کے بیانات اور گواہیاں لیں ان میں گجرات کے 2002ء میں پولیس کے انٹیلی جنس افسر رہنے والے سنجیوبھٹ کا بیان حلفی خاصا اہم ہے جس میں سنجیو نے بتایا کہ گودھرا ریلوے سٹیشن پر ہندو زائرین کی بوگیوں کو جلا دیا گیا جس سے 60 زائرین جل کر مر گئے نریندر مودی نے ریاست کے پولیس اور انتظامیہ کے افسروں کو حکم دیا کہ وہ ٹرین جلانے کا بدلہ لینے کیلئے بے تاب ہندو فسادیوں کو مسلمانوں اور انکے گھروں پر حملوں سے نہ روکیں، مودی سرکار نے اب اس انٹیلی جنس افسر سنجیو کمار کو محکمہ پولیس سے برطرف کردیا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی ورکر ٹریسٹا سٹیولینڈ کیخلاف بھی انتقامی کارروائی کرتے ہوئے تحقیقات شروع کرا دی گئی ہیں۔ ٹریسٹا کا مودی کیخلاف کیس کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ اس مقدمے میں دکھانا چاہ رہی ہیں کہ اہم حکومتی عہدے پر بیٹھا شخص اور اس کے ماتحت کس طرح منظم مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں۔ مقدمے کی مدعی ذکیہ جعفری نے رائٹرز کو بتایا کہ میں اپنے شوہر کے قتل کا مقدمہ نہیں لڑ رہی بلکہ گجرات فسادات میں زندہ جلائے اور تلواروں سے ٹکڑے کئے گئے 2 ہزار مسلمانوں کے خون پر انصاف مانگ رہی ہوں۔