بقر عید بکرا اور بال کی کھال اتارنا
اس بار بقر عید بکرا عید بن گئی ہے۔ ہر شے مہنگی ہو رہی ہے۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک تو میں نے بے ساختہ کہا قیمت کی جمع قیامت۔ قربانی کرنا اب تو ایک فیشن بن گیا ہے۔ اس میں کمپیٹیشن (مقابلہ) بھی بہت آ پڑا ہے۔ خوبصورت اور سمارٹ بکرے بیل اور اونٹ لگتا ہے کہ جانوروں کا مقابلہ حسن ہو رہا ہے۔ زیادہ تر لوگ مویشی منڈیوں میں سیر و تفریح کے لیے آ رہے ہیں۔
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
اس مرتبہ جانوروں کی خوبصورتی اور قیمتوں کا ذکر بہت ہوا ہے۔ اس کے ساتھ جانوروں کی کھالوں کا بہت چرچا ہے۔ یہ بھی ایک سیاسی معاملہ بن گیا ہے۔ ایم کیو ایم والے کھالیں جمع کرنے کے لیے باقاعدہ کوئی تحریک چلانے والے ہیں۔ انہیں پہلے کی طرح کھالیں اکٹھی کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کچھ لوگ کراچی میں کھالیں جمع کرتے ہیں جیسے چندہ لیا جاتا ہے۔ جیسے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ مجبوری اور خیرات گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔
قربانی کے ذکر میں کھال کا ذکر زیادہ زور شور سے ہو رہا ہے۔ یہ ذکر اس قدر ہوا ہے کہ یہ محاورہ یاد آ گیا ہے بال کی کھال اتارنا۔ اب جانوروں سے زیادہ کھال کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ان دنوں اخبارات میں کھالیں تحفہ کرنے کے لیے اشتہارات کی بھرمار ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ کچھ ادارے ہسپتال اور تنظیمیں مستحق ہیں کہ انہیں کھالیں دی جائیں لیکن بالعموم کھالوں کے حوالے سے لوگ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اتنے پروپیگنڈے کے باوجود یونہی کھال اٹھا کے کسی کو دے دیتے ہیں۔ آج کل کھالیں جمع کرنے کے زور شور اور اشتہاری مہم دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لاکھوں روپے کا معاملہ ہے۔ کیونکہ ہزاروں تو اشتہاروں وغیرہ پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ اپنے دروازے کے آگے کھڑا تھا تو چند نوجوان آ گئے۔ انہوں نے ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں اور داڑھیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے کہا کہ دو دن پہلے کھال ہم کیسے آپ کو دے سکتے ہیں۔ انہوں نے رسید بک نکالی اور کہا آپ وعدہ کر لیجئے ہم خود آ کے کھال جمع کر لیں گے۔ یہ لوگ جماعت الدعویٰ کی طرف سے تھے۔ مجھے لگا کہ وہ برادرم یحیٰی مجاہد کی طرف سے آئے ہیں۔
ایک اشتہار چل رہا ہے اور مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ قربانی اللہ کے لیے کھال شوکت خانم کے لیے۔ کھال بھی جو دے گا وہ اللہ کے لیے دے گا۔ اس کے لیے میری گذارش ہے کہ شوکت خانم ہسپتال والے پہلے تو یہ کریں کہ لوگ جو ٹیسٹ کرواتے ہیں انہیں مارکیٹ سے بھی دگنا ریٹ دینا پڑتے ہیں۔ ایک ٹیسٹ جو دوسری اچھی قابل اعتماد لیبارٹریز میں 200 روپے سے کم پر ہو جاتا ہے۔ شوکت خانم والے اس کے لیے 300 روپے سے بھی زیادہ چارج کرتے ہیں۔ میں نے کئی لوگوں کو بڑبڑاتے ہوئے دیکھا۔ لیبارٹری میں ملازمین بھی اتنی فیس کے لیے پریشانی کا اظہار کر رہے تھے۔ شوکت خانم والے لوگوں کو کچھ بھی ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر لوگوں سے ہر طرح کا چندہ اکھٹا کرنے کے لیے سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود میرے خیال میں جو لوگ شوکت خانم کو کھال دینا چاہتے ہیں ضرور دیں۔
لاہور میں ایک اور ہسپتال کینسر کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ کینسر کیئر ہسپتال کے لیے تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے شوکت خانم کے لیے جو پابندیاں لوگوں پر نافذ کرنے کی روایت شروع کر دی گئی ہے وہ بالکل نہیں ہو گی۔ ہر کسی کو ہرممکن سہولت دی جائے گی۔ کینسر کیئر ہسپتال بن جانے سے شوکت خانم والوں کو کمپیٹیشن کا سامنا بھی ہو گا اور اس طرح عام لوگوں کو فائدہ ہو گا۔ کینسر کیئر ہسپتال ٹرسٹ کے صدر نامور کینسر سپیشلسٹ ڈاکٹر شہریار ہیں۔ گذارش ہے کہ کھالیں ان کے لیے دی جائیں تو مستقبل میں بہت فائدہ ہو گا۔ ان کے لیے عطیات اور خیرات کے لیے میں پہلے بھی اپیل کر چکا ہوں۔ احتیاطاً ان کے فون نمبر لکھ رہا ہوں۔ 0321-4411270/ 0310-4995758۔
اس کے علاوہ سہارہ ٹرسٹ کے لیے ابرارالحق کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ تو دوستوں پر منحصر ہے کہ وہ کس کے لیے سوچتے ہیں کہ اس کے ذریعے عوام کا بھلا ہو گا۔ سہارہ ٹرسٹ والوں نے لاہور سے دور نارووال میں ایک ہسپتال عام لوگوں کے لیے بنوایا ہے کہ دور آباد بستیوں کے لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔ ایک بہت فلاحی ہسپتال حجاز ہسپتال ہے۔ یہاں سے واقعی مریضوں کو دیار حجاز کی خوشبو آتی ہے۔ اس کے بانی محترم انعام الٰہی اثر ہیں۔ انہوں نے اپنا سب کچھ ہسپتال کے لیے وقف کر دیا ہے۔ اس ہسپتال میں مریضوں کے لواحقین کی بھی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ حجاز ہسپتال کے لیے نوائے وقت کی کالم نگار مسرت قیوم بہت زیادہ سرگرم اور محترم ہیں۔ وہ بے لوث طریقے سے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ نوائے کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی، کالم نگار یٰسین وٹو اور میں اس ہسپتال میں جا چکے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ یہ ہسپتال بہت ترقی کرے۔ پچھلے دنوں مسرت قیوم کا جوان خوبصورت بیٹا انتقال کر گیا۔ وہ ترکی میں سمندر میں ڈوب کے فوت ہوا۔ اس لیے مسرت قیوم نے ایک دردناک کالم میں اسے شہید کہا ہے۔