الزامات کی بھگدڑ میں حقائق کچلنے کی کوشش
آزادی کے بعد الہ آباد میں یہ ہندومت کے پیروکاروں کا پہلا مہا کمبھ میلہ تھا، ایک اندازے کےمطابق اس میلے میں ہندومت کی مذہبی رسومات ادا کرنے کیلئے چالیس سے پچاس لاکھ لوگ شریک ہوئے تھے، لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کی وجہ سے انتظامیہ نے اپنی جانب سے پوری کوشش کی کہ میلے کے انتظامات انتہائی مہارت سے کیے جائیں۔ 3 فروری 1954ءکو ماو¿نی(نئے چاند) کی رات کمبھ میلے کی سب سے اہم رسم ”گنگا اشنان“ شروع ہوئی اور چاند کی جھلملاتی چاندنی میں پانی کی دو گڑویاں سر پر انڈیل کر اپنے ”پاپ“ دھونے کیلئے لاکھوں ہندو یاتری اکٹھے ہوئے تو اشنان کیلئے دریا کے پاٹ پر بنائے گئے بندکی جگہ پراچانک رش بڑھ گیا۔یہ تو عام غریب غربا ہندو یاتریوں کیلئے مخصوص جگہ تھی لیکن دوسری جانب مشرق کے رُخ پر لوہے کی باڑ لگاکر ایک حصے کو راجاو¿ں، رانیوں،امرائ، ٹھاکروں، ارکان پارلیمنٹ،وزرائ، سیاستدانوں اور سادھو یاتریوں کیلئے مخصوص کردیا گیا تھا، جس کی وجہ سے عام ہندو یاتریوں کے اشنان کی جگہ بہت کم پڑ گئی تھی، جگہ کم ہونے سے عام یاتریوں کیلئے مخصوص جگہ پر اچانک بھگدڑ مچی اور ہاہاکار شروع ہوگئی۔ دی گارڈین کے مطابق اس بھگدڑ میں ایک دوسرے کے نیچے آکر کچلے جانے سے ایک ہزار کے لگ بھگ ہندو یاتری مارے گئے، چار سو سے زائد لاپتہ ہوگئے جبکہ دو ہزار کے قریب زخمی اور معذور ہوگئے۔ ہندووں کی تاریخ میں یہ یقینا ایک المناک واقعہ تھا،جس کے بعد اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس واقعہ کی تحقیقات اور آئندہ کیلئے اس طرح کے واقعات سے بچاو¿ کی سفارشات اور تجاویز تیار کرنے کیلئے ”جسٹس کاملہ کانت ورما“ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی ۔جسٹس ورما کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے تحقیقات کے بعد سفارشات مرتب کیں، جن کی روشنی میں انتظامیہ اور حکومت نے فوری اقدامات اٹھائے اور بالخصوص سیاستدانوں اور وی وی آئی پیز کے کبمھ میلے میں خصوصی پروٹوکول کے ساتھ شرکت پر پابندی لگادی گئی۔یوں جسٹس ورما کی سفارشات پر عمل کرتے ساٹھ سال گزرنے گئے اور اِ س دوران اِکا دُکا معمولی نوعیت کے واقعات کے علاوہ بھگدڑ مچنے کا کوئی بڑاواقعہ رونما ہوا نہ ہی بڑی تعداد میں ہلاکتیں دیکھنے میں آئیں۔ جس جگہ بھی لوگ سینکڑوں کی تعداد سے بڑھ کر ہزاروں کی تعداد میں تبدیل ہوجائیں(اور بالخصوص وہ لوگ کسی نظم میں پابند بھی نہ ہوں )تو وہاں بھگدڑ مچنا اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کا ہونا خدشات میں ہمیشہ شامل رہتا ہے۔جمعرات کو حج کے دوران منیٰ میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جب حج کے اہم واجبات میں سے ایک ”رمی جمرات“ کے دوران بھگدڑ مچنے سے 717 حجاج شہید اور 800 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ منیٰ میں رمی جمرات کے دوران بھگدڑ مچنے سے شہادتوں کا یہ کوئی پہلا واقعہ بھی نہیں تھا، اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں اور سینکڑوں شہادتیں ہوچکی ہیں۔بیسویں صدی میں بالخصوص ذرائع آمدورفت کی ترقی اور جدت کے بعد دنیا بھر سے حجاز مقدس جانے والے زائرین کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔حج کے موقع کے علاوہ بھی سارا سال عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔سعودی عرب کی حکومت مکہ المکرمہ اور مدینة المنورہ جانے والے عازمین حج اور زائرین کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کیلئے اچھے انتظامات کرتی رہتی ہے۔ منیٰ میں بھگدڑ سے ہونے والی شہادتیں یقینا افسوس ناک ہیں لیکن اِس موقع پرایرانی میڈیا کی جانب سے افواہیں اُڑادی گئی کہ سعودی شہزادوں کو رمی کی ”آرام دہ سہولت“ فراہم کرنے کیلئے باقی راستے بند کرنے یہ المناک حادثہ پیش آیا ، اس افواہ نما خبر اور الزام نے دوسرے فریق کو بھی جواب دینے کا موقع پیش کردیا، لیکن چونکہ حج کے دوران وی آئی پیز کیلئے ”روٹ“ لگانے کا الزام انتہائی لغو تھا، اس لیے ایرانی میڈیا کی اس غلط خبر نے صورتحال کو کافی مکدر کردیااور سعودی حکام نے اسے شہادتوں پر سیاست کرنے سے تعبیرکیا۔ دوسری جانب ایرانی حج مشن کے ایک عہدیدار کے حوالے سے کثیرالاشاعت عرب روزنامہ ”الشرق الاوسط“ نے اپنی ایک اشاعت میں انکشاف کیا کہ ” ایرانی حجاج کا گروپ جمعرات کی صبح مزدلفہ سے براہ راست شیطان کو کنکریاں مارنے کو روانہ ہواتو اُس گروپ نے اپنے لیے مخصوص خیموں میں سامان وغیرہ رکھ کر مخصوص اسمبلی پوائنٹ پر انتظار نہیں کیا، جو معمول کی ہدایات کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور اس کے برعکس الٹے پاو¿ں واپسی شروع کر دی۔ واپسی کا یہ وقت دوسرے حج مشن کے رمی جمرات سے نکلنے کے لئے مخصوص تھا، جس کی وجہ سے یہ ہلا کت خیز تصادم ہوا“۔ انتظامیہ کی ہدایات پر عمل نہ کرنے سے ہندووں کے مقدس کمبھ میلے میں بھگدڑ مچنے کا دوسرا بڑا واقعہ اکسٹھ برس بعد 2013ءمیں الہ آباد ریلوے اسٹیشن پر پیش آیا، جس میں 36ہندو یاتری مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ”دی ٹائمز آف انڈیا“ کے صحافی نریش مشراکی ایک رپورٹ کے مطابق 2013ءمیں پیش آنے والا بھگدڑ کا یہ واقعہ ساٹھ سال پہلے مرتب کی جانے والی جسٹس ورما کی سفارشات کی خلاف ورزی کی وجہ سے پیش آیا، جسٹس ورما نے بھگدڑ سے بچاو¿ کیلئے”ون روڈ ٹریفک موومنٹ“ کا فارمولہ دیا تھا، ساٹھ سال تک اس فارمولہ پر عمل ہوتا رہا تو بھگدڑ کا کوئی واقعہ بھی پیش نہ آیا، لیکن جونہی یاتریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ریلوے حکام نے ”ون روڈ ٹریفک“ فارمولہ کو نظر انداز کیا تو کمبھ میلا کا دوسرا ہلاکت خیز واقعہ پیش آگیا۔قرائن بتاتے ہیں کہ منیٰ کا حادثہ بھی بعض حجاج کی جانب سے ”ون روڈ ٹریفک موومنٹ“ کے فارمولے پر عمل کرنے کی بجائے ”ٹو وے ٹریفک موومنٹ“ کے نتیجے میں تصادم کے باعث پیش آیا، لیکن بہرحال اصل صورتحال جو بھی ہے ،تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے جانے چاہئیں۔ قارئین کرام!! لاکھوں کے اجتماع میں منیٰ جیسے حادثات کا ہونا یقینا المناک ہوتا ہےمنیٰ کے حادثے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ایسے حادثات سے بچا و¿ کیلئے تجاویز اور سفارشات پیش کرکے ایک جامع ہدایت نامہ تیار کیا جاتااور آئندہ کیلئے ہر ملک اپنے عازمین حج کو اُن ہدایات پر سختی سے کاربند رہنے کیلئے تیار کرتا لیکن کچھ لوگوں نے انسانی جانوں پر سیاست شروع کرکے صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش شروع کردی۔اب کیا یہ المیہ نہیں کہ کمبھ میلہ کے ایک حادثے کے بعد تجاویز اور سفارشات تیار کرکے اور اُن پر ساٹھ سال مسلسل عمل کرکے ہندو ہم پر سبقت لے گیا؟ اور دوسری جانب ہم اپنی اپنی ذمہ داری اٹھانے کے بجائے الزامات کی بھگدڑ میں حقائق کچلنے میں مصروف ہیں!