فیصل آباد چیمبر اور کالا باغ ڈیم
حج بیت اللہ جہاں عالم اسلام کی یکجہتی کی روشن دلیل ہے دنیا بھر سے فرزندان توحید بلا امتیاز رنگ ونسل ایک کعبہ ،ایک خدا اور ایک قرآن کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد دیتے ہیں وہاں یہ عظیم الشان اجتماع عالم کفر کے لئے خوف و ہیبت کی علامت ہے ۔ مسلمان صر ف اس دن اکٹھے ہوتے ہیں مگر دشمنان دین سارا سال ان میں اختلاف کے جال بنتے اور چالیں چلتے رہتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ تقریبا ڈیڑھ دوارب نفوس پر مشتمل چھپن مسلم ممالک جو تیل و گیس کے وسیع ذخائر کے علاوہ دوسری بے شمار قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہیں مگر باہم نفاق اور انتشار میں مبتلا ہیں ۔ اللہ وبارک تعالیٰ کے عطا شدہ خزینے اور دفینے ان کے دشمنوں کے کام آرہے ہیں ۔ نااتفاقی و ناچاکی کے باعث وطن عزیز میں بھی ہم اپنے مستقبل کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے قاصر ہیں ۔ جیسے کالا باغ ڈیم کامنصوبہ جس کی تعمیر سے ہماری زراعت، صنعت اور تجارت کو مختصر ترین عرصہ میں بام عروج ہو سکتا ہے مگر ہماری اشرافیہ ناجانے کس کے اشارے پر اس عظیم قومی منصوبے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ۔ سب کی زبان پر ایک ہی فقرہ ہے کہ یہ منصوبہ اتفاق رائے سے ممکن ہے ۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ یہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے واسطے آسمان سے کوئی نازل ہوگانہ اشرافیہ میں سے کوئی میدان عمل میں آتا دکھائی دیتا ہے ۔ہاں دردملت سے سرشار سندھ طاس واٹر کونسل کے چیئر مین سلمان خان نے نئی حکمت عملی کے تحت ملک بھر کے چیمبر کامرس کو قائل کرنے کیلئے لاہور اور سیالکوٹ کے بعد فیصل آباد چیمبرز جانے کا پروگرام مرتب کیا۔
محمد سلیمان خان اور انجینئر سید منسوب علی زیدی و سابق سیکرٹری اریگیشن پنجاب کی سربراہی میں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے آگہی مہم کا وفد فیصل آباد پہنچا۔ وفد کا استقبال چیمبر کے صدر انجینئر رضوان اشرف، سینئر نائب صدر ندیم اقبال ، سابق صدور صاحبان سمیت دیگر معزز ارکان نے کیا۔ سیمینار کے آغاز میں صدر چیمبر نے سندھ طاس واٹر کونسل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھیں اپنے پورے تعاون کا یقین دلایا اور کہاآج توانائی کے بحران کی شدت کی وجہ سے کارخانے بند ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ پاکستان بننے کے وقت پانی کی فی کس دستیابی پانچ ہزار کیوبک میٹر تھی جو آج ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہو چکی ہے۔ یہ اس لئے کہ ہم نے قدرت کے بہترین عطیہ پانی کے ذخائر کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اگر ہم کالا باغ ڈیم سمیت دیگر ڈیم بنا چکے ہوتے تو ہماری صنعتوں کو نہ صرف بہترین خام مال ملتا بلکہ سستی بجلی کی فراہمی سے ہماری ویلیو ایڈڈ اشیاءبہتر داموں میں ایکسپورٹ ہوتیں۔ہم پاکستان کے تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کے لئے آپ کے ساتھ مل کر ہر ممکن اقدامات کریں گے۔محمد سلیمان خان نے اپنے خطاب میں کہا ۔ سیلابوں سے پاکستان کے ہر شعبہ زندگی کو بدترین خسارے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ 2010 کے سیلاب میں قوم کا 12 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اتنا ہی نقصان 1992 کے سیلاب میں بھی ہوا تھا۔ 2011اور 2014 کے سیلابوں نے بھی پاکستان کی معیشت کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہر دوسرے سال خشک سالی سے تھرپارکر میں سینکڑوں بچے موت کی ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیلاب کا اصل منبع کون سی جگہ ہے۔ بھاشا کے مقام پر پانی کا سالانہ اوسط بہاو¿ 50MAF تربیلا کے مقام پر 60MAF اور کالا باغ کے مقام پر 90MAF کا اوسط بہاو¿ ہوتاہے۔ تربیلا سے اوپر 90%سے زائد پانی گلیشئر کا، مکمل کنٹرولڈ اور استعمال ہو رہا ہے۔جبکہ تربیلا سے نیچے کالا باغ تک 30MAF کے پانی کا زیادہ حصہ سیلابی پانی کا ہے۔ اسی پانی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اس کا جواب انجینئر دیں گے کہ اس پانی کو روکنے کےلئے کونسی جگہ زیادہ موزوں ہے۔ پوری دنیا کے انجینئر اس بات پر متفق ہیں کہ کالا باغ ڈیم بہترین مقام ہے جہاں ہم سیلابی پانی کو روک کر تمام صوبوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ 1991 کے واٹر اکارڈ میں کالا باغ ڈیم سے حاصل ہونے والے پانی کا اندازہ 11.62MAF لگایا گیا۔ اکارڈ کے تحت پنجاب اور سندھ میں سے ہر ایک کے 37% خیبر پی کے کو 14 اور بلوچستان کو 12% شیئر دیا گیا۔ اس موقع پر پنجاب نے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے دوسرے صوبوں کو اپنے حصہ کا پانی دیا۔ اس طرح سندھ کو 5.72، KPK کو 2.69 اور بلوچستان کو 1.76ملین ایکڑ فٹ پانی ملا جبکہ پنجاب کے حصہ میں صرف 1.45MAF پانی آیا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ دیگر صوبے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسری طرف اکارڈ کے تحت پانی کی تقسیم کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انجینئر سید منسوب علی زیدی نے کہاکہ یہ واحد ڈیم ہے جس میں سلٹ جمع نہیں ہو سکتی۔ بھاشا اور داسو سمیت دیگر پراجیکٹس بننے کے بعد بھی بجلی کی لمبی ٹرانسمیشن لائن بچھانی پڑے گی۔ جبکہ کالا باغ لوڈ سنٹر کے درمیان ہے۔ صرف چند دن کے نوٹس پر اس پر کام شروع ہو سکتا ہے۔
نذر حسین دریشک نے کہا۔ بلوچستان کی پسماندگی کی اصل وجہ پانی کی عدم فراہمی ہے۔ بلوچستان کا بیس مربع کا زمیندار بھی ملک کے دیگر علاقوں میں مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے جبکہ اپر پنجاب کا چھ ایکڑ کا زمیندار بھی اچھا گھر اور گاڑی رکھتا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو کچھی کینال کے ذریعے بلوچستان کے وسیع علاقہ کو آباد کیا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف بلوچستان کے لوگ خوشحال ہوں کے بلکہ پاکستان بھی غلہ کے لحاظ سے خودکفالت سے کہیں آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ بھارت کالا باغ ڈیم کا شدید مخالف ہے۔ اس کے حواری اے این پی اور جئے سندھ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے۔ اس کے مقابلہ میں ہماری حکمران ہی نہیں پارلیمنٹ بھی لاشعوری طور پر ان پاکستان مخالف گروہوں کی بات مان کر کالا باغ ڈیم بننے سے اجتناب کر رہی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا پاکستان کے لئے کیا مفید ہے؟ندیم اقبال نے کہا۔ ہم سندھ طاس واٹر کونسل کی کالا باغ آگہی مہم کی پرزور تائید کرتے ہیں۔ وہ جب چاہیںفیصل آباد چیمبر میں کالا باغ ڈیم کی آگاہی کے لئے سیمینار یا کانفرنس منعقد کر سکتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ پورا تعاون کریں گے۔ اس موقع پر ڈاکٹر خالد محمود شوق نے بھی اظہار خیال میں کالا باغ کی افادیت بیان کرتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا ۔ فیصل آباد چیمبر کا اس موقع پر رویہ نہایت فکر انگیز اور جذباتی تھا کیونکہ جوفیصل آباد پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا تھا آج وہاں بجلی نہ ہونے کے باعث کارخانے بند ، مزدور بھوکے اور شہر اندھیروں کا شکار ہیں ۔ راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگر وطن عزیز میں روشنیاں لانے ، بھوک و افلاس سے نجات ، زراعت صنعت اور تجارت کو فروغ دینا ہے تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر ناممکن ہے ۔ کالا باغ ڈیم اب حب الوطنی ترقی اورخوشحالی کی علامت بن چکا ہے۔