• news
  • image

کہاں وہ چور اور کہاں یہ بھکاری

’’ میں ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کرچکا ہوں اور میں نے ایک شخص ایسا نہیں دیکھا جو بھکاری ہو یا جو چور ہو،میں نے اس ملک میں ایسی دولت دیکھی ہے، ایسی بلند اخلاقی قدریں اور ایسے بلند معیار کے لوگ کہ میرا نہیں خیال کہ جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی جو کہ اس کا سپرچوئل اور کلچرل اثاثہ ہے نہیں توڑیں گے کبھی ہم اس ملک کو فتح کر سکیں گے لہٰذا میں تجویز کرتا ہوں کہ یہاں کا پرانا اور قدیم نظام تعلیم ،یہاں کا کلچربدل دیا جائے تاکہ ہندوستانی لوگ ہر غیرملکی چیز اور انگریزی کو اپنے سے بہتر اور عظیم جانتے ہوئے اپنے ذاتی وقار ،اپنے آبائی کلچر کو کھودیں اور ایسا ہو جائیں جیسا ہم چاہتے ہیں یعنی صحیح معنوں میں ایک مغلوب قوم،، 2فروری 1835ء کو برٹش پارلیمنٹ سے لارڈ میکالے کو منسوب خطاب کے ان اقتباسات کی حقیقت کیا ہے یہ اس کالم کا موضوع نہیں۔ خطاب کے حوالے سے میکالے کی تصنیفات کی خاموشی کا پس منظر زیر بحث لانا بھی مقصود نہیںلیکن یہ سچ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ چوروں اور بھکاریوں سے پاک ہو وہاں کے نظام تعلیم،نظام حکومت، کلچر اور اخلاقی اقدار کی عظمت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا اور ایسے ہی معاشروں سے عظیم قومیںجنم لیتی ہیں ۔ اسکے بر عکس اگر کسی معاشرے میں چوروں اور بھکاریوں کی فراوانی ہو جائے تو ماننا پڑے گا کہ وہاں کے نظام تعلیم، نظام حکومت ، کلچر اور اخلاقی اقدار کے پراگندہ ہونے میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں ۔ قطع نظر اسکے کہ مغرب و مشرق سمیت دنیا میں کہیں بھی جرم سے پاک معاشرے کا تصور ممکن نہیں ایک بات طے ہے کہ اگر اقوام عالم میں کچھ وقار مقصود ہے تو مہذب معاشرے کا قیام ناگزیر ہے جس کیلئے قوم کو نہ صرف جرم کی بیخ کنی کا چیلنج قبول کرنا ہو گابلکہ قرضوں پر انحصار کی بجائے خود انحصاری پر مبنی منصفانہ معیشت اور یکساں تعلیمی نظام کی کڑوی گولی بھی نگلنا پڑیگی ہمیں ہر صورت مغربی کلچر سے نجات حاصل کرکے اپنے مقامی کلچر کو بحال کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارا الیکٹرانک میڈیا جو کلچر پیش کر رہا ہے وہ پاکستان کے کونسے خطے میں پایا جاتا ہے۔ ذاتی کاروباری نفع کی خاطر آرٹ کے نام پر فحاشی عام ہے۔ کیا ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں؟ درجنوں قسم کے تعلیمی اداروں کے مالکان تدریس کے نام پر چوٹی کے منفعت بخش کاروباری مراکز چلا رہے ہیں جسکی وجہ سے تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ غریب کے بس سے باہر ہو چکی ہے اور تعلیمی اداروں کے نام پر یہ کاروباری مراکز پیسہ بنانے میں مگن ہیں حالانکہ دستور 1973ء کا آرٹیکل 25 اے پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کیلئے یعنی میٹرک تک مفت تعلیم کی گارنٹی دیتا ہے مگر سمجھ سے باہر ہے ان نجی تعلیمی اداروں پر آئین کے آرٹیکل25 اے کا اطلاق کب ہوگااور یکساں نظام تعلیم کا خواب کب شرمندہء تعبیر ہوگا۔ رہی بات چوروں اور بھکاریوں کی تو ہمارے ہاں یہ لوگ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بھکاریوں کی ایک قسم تو عام فہم ہے جو جگہ جگہ سگنل پر سرخ بتی جلنے پر راہگیروں پر بالعموم اور کار سواروں پر بالخصوص ہلہ بولنا اپنا حق سمجھتے ہیںیا دروازے پر دستک دیکر سوال کرتے ہیں عام طور پریہ انتہائی شریف النفس لوگ ہوتے ہیں جو سوال کرنے کیلئے خود چل کرآتے ہیںمگر دوسری قسم کے بھکاری تو پرچی بھجواء کر مقررہ وقت کا انتظار کرتے ہیں اور مثبت جواب نہ آنے پر ’’جواب طلبی،، کی کارروائی کا بلا روک ٹوک آغاز کردیتے ہیں ۔بھکاریوں کی یہی قسم دراصل چند دہائیوں سے قوم کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔جہاں تک چوروں کا تعلق ہے تو ا س حوالے سے بھی ہم کافی حد تک خود کفیل ہیں۔ چوری توپہلے بھی ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔ پہلے مرغی چور ،رضائی چور نقدی یا زیور چور نقب لگاتے تھے اب ایسا نہیں ہوتا ۔ اب چوری کے انداز جداگانہ ہیں۔ کہیں پٹرول پمپ کا پیمانہ کم کرکے حکومت کے مقررہ نرخوں پر پٹرول سیل کر کے باعزت طریقے سے گاہک کی جیب پر نقب لگائی جاتی ہے ۔کہیں فروٹ فروش اچھا پھل ڈسپلے پر سجا کر گلا سڑا پھل گاہک کو تھما کر یہ فریضہ سرانجام دیتا ہے تو کہیں کوئی فارماسیوٹیکل کمپنی دو نمبر دوائی مارکیٹ میں لانچ کر تی ہے ڈاکٹر کے یہی دوائی تجویز کرنے پر یہ دو نمبر دوائی مریض تک پہنچ کر مریض کا ستیاناس کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ کہیں سرکاری ہسپتال کا معالج مریض کو اپنے نجی کلینک میں شفٹ کر کے سرکاری سٹور کی دوائی فروخت کرنے میں فخر کرتا ہے تو کہیں سرکاری افسر،اہلکار اور دیگر ذمہ دار عہدوں پر فائز لوگ اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے امانت میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔کہیںٹھیکیدار مقامی نمائندوں کو ’’قانونی،، کمیشن دیکرکلین چٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ گوالہ دودھ میں پانی ملاتا تھا اب کیمیکل ملاکر دودھ فروخت کرتا ہے۔بڑے بڑے نامی ہوٹل اور ریسٹورنٹ مٹن کے نام پر گدھوں اور دیگر حرام جانوروں کے گوشت سے گاہکوں کی تواضع کرنے کی سٹیج تک پہنچ جائیںتو پھر یہ کہنا کیا کافی ہے کہ ہمارا معاشرہ ہی بڑا خراب ہے۔پھر یہ رائے بھی شد و مد سے دی جاتی ہے کہ اگر ہر کوئی خود کو درست کر لے تو قوم خود بخود درست ہو جائیگی۔ اب قارئین خود ہی فیصلہ کریں کہ جب کوئی خطہء زمین معاشرتی برائیوں سے لبریز ہو جائے تو کیا لوگوں کے خود بخود درست ہونے کا انتظار کیا جا سکتا ہے یا ریاست اور قوم کابھی کوئی کردار بنتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن