”اکیسویں صدی کا ہٹلر“
’ بوسنیا اور سربیا کے GENECIDE کے ذمہ داروں کو عدالتی کٹہرے میں ضرور لایا گیاہے۔ کچھ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ۔مذہبی جنون اُن کے سروں پر ہر وقت سوار رہتا ہے۔ آ ج کل دنیا کے امن کو پھر ایک ایسا ہی شخص تباہی کے دہانے کی طرف لا رہا ہے۔ جو سترہ ستمبر 1950ءکو گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوا اور جس کا گھرانہ چھ بہن بھائیوں پر مشتمل تھا۔ ہندو مذہب میں ذات برادری کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے چونکہ موصوف کا تعلق تیلی خاندان سے تھا جو کہ ہندوو¿ں میں ایک نچلی ذات گنی جاتی ہے ۔اس لئے صاحب التذکرہ شروع سے ہی احساسِ محرومی میں مبتلا تھے لیکن مزاج فنکارانہ تھا۔ فنِ تقریر میں کمال حاصل تھا۔ اس لیے آٹھ سال کی عمر میں ہی RSSمیں چلے گئے ۔ 1967ءمیں میٹرک کاامتحان پاس کیا اور اسی سال گھریلو جھگڑوں کی بنا پر گھر چھوڑ کر مختلف آشرم میں وقت بسری شروع کر دی۔ جہاں پر ہندوبنیاد پرستی کی سوچ موصوف کے دل و دماغ میں اس طرح سرایت کر گئی کہ صاحب RSSکے کٹر کارکن بن گئے۔ 1975-77 کے دوران جب RSSپر پابندی لگی تو یہ صاحب انڈر گراو¿نڈ چلے گئے اور اسی دوران اِنھوں نے THE STRUGGLE OF GUJRATکے نام سے ایک کتاب لکھی۔ 1985 میں RSSنے اپنے نمائندے کے طور پر انہیں BJP میں بھیجا ۔ جہاں سے موصوف ترقی کرتے کرتے پہلے 2001ءمیں گجرات کے وزیرِ اعلیٰ بنے اور پھر 2002ءمیں ہندوو¿ں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتلِ عام پر نہ صرف شہرت پائی بلکہ دنیا کی بیشتر مہذب قوموں نے ان کے اپنے ملکوں میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ موصوف نے مسلمانوں کے اس قتلِ عام کو اپنا عظیم کارنامہ بنا کر ”ہندوتوا“ کا خوب پرچار کیااور اسی مذہبی منافرت کو اُچھالتے ہوئے وہ 2014ءکو ہندوستان کے وزیرِ اعظم بن گئے۔ جن صاحب کا میں ذکر کر رہا ہوں لوگ انھیں نریندر مودی کے نام سے پُکارتے ہیں ۔ مودی اور ہٹلر دونوں کی زندگیوں کو موازنہ کریں تو ان کی زندگیوں میں بے پناہ مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں کی تاریخ پیدائش کو دیکھتے ہوئے علم الاعداد کی روشنی میں دونوں کا حاصل عدد 5ہے۔ گویا کہ دونوں کے قول و فعل ایک جیسے ہیں ۔ دونوں چھ چھ بہن بھائی تھے۔ دونوں نے آٹھ سال کی عمر میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ دونوں کا رجحان فنون لطیفہ کی طرف تھا۔ ابتدائی عمر میں دونوں گھر چھوڑ کر چلے گئے ۔ ایک ہاسٹل میں اور دوسرا آشرم میں قیام پذیر رہا۔ دونوں نے کتاب STRUGGLE کے نام سے لکھی۔ دونوں احساسِ کمتری کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ دونوں کے اندر نسلی امتیاز۔ مذہبی نفرت،انتہا پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ ایک یہودیوں کو صفحہ ¿ ہستی سے مٹانے کا عزم لیے ہوا تھاتو دوسرا مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے خواب آنکھوں میں بسائے پھر رہا ہے۔ آپ ذرا فیصلہ کیجئے جس جنگ کی باتیں یہ صاحب کر رہے ہیں اور جس ملک کے خلاف یہ جنگ لڑنے جار ہے ہیں وہ ملک کون سا ہے اُس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستا ن جو کہ اس وقت دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے ۔ مودی صاحب شاید یہ بھول گئے ہیں کہ جنگِ عظیم دوئم میں 29 ملین لوگ موت کا رزق بنے تھے جب صرف دو ایٹم بم چلے تھے ۔ پاکستان اور ہندوستان کے پاس ایک سو کے قریب قریبایٹم بم تو ہوں گے ۔ جو جنگ شروع کرے گا تاریخ اُسے اُس کے اصل نام سے نہیں بلکہ اکیسویں صدی کے ہٹلر کے نام سے پُکارے گی۔ اب یہ دنیا کا کام ہے کہ وہ اس شخص کو تاریخ دہرانے سے کیسے روکتی ہے کیونکہ ”HISTORY IS A VAST EARLY WARNING SYSTEM“۔ .... (ختم شد)