دہشتگردوں کے ”سہولت کاروں“ کا بھی قلع قمع کر نا ہوگا
ہر مسلمان کا یہ مکمل ایمان ہے کہ ارشاد ربانی ہے ”جس نے کسی بھی انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا“ خاتم النبین فرماتے ہیں ”مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا جھگڑنا کفر ہے“ اور یہ کہ ”مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“ درج بالا قرآن واحادیث کی تعلیمات کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ جہنمی دہشت گردوں کے مقاصد میں ” نفاذ اسلام“ اور شریعت محمدی کا رائج کرنا“ ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ ایک ہفتہ قبل پشاور فضائیہ کیمپ پر جہنمی دہشت گردوں نے حملہ کر کے خانہ خدا میں نمازیوں کو شہید کر کے اپنے لئے جہنم کی آگ کو مقدر ٹھہرایا، اس دہشت گردی میں کم وبیش نوے ہزار پاکستانی معصوم شہری اور افواج پاکستان کے دلیر اور جذبہ ایمانی سے لبریز سپاہی اور افسران جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جنرل راحیل شریف جس جذبے سے دہشتگردوں کا قلع قمع کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے جس روز پہلے دہشت گرد نے پاکستان میں دہشتگردی کی اگر اسی روز اس وقت کے آرمی چیف اور سیاستدانوں کا یہ جذبہ ہوتا تو یقینا آج ہم یہ جنگ جیت چکے ہوئے۔ اگر ”صدر“ زرداری کی حکومت اور جنرل کیانی نے جنرل راحیل شریف کی طرز پر کام کیا ہوتا تو آج یہ دن ہرگز نہ دیکھنے پڑتے۔ مگر ”صدر“ زرداری نے اپنی پارٹی سمیت تمام اتحادیوں کو لوٹ مار کےلئے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ کرپٹ ترین ”صدر“ اور ”وزیراعظم“ گیلانی صرف فوٹو سیشن ہی کرواتے رہے اور اپنے فرائض کو پس پشت ڈال کر مزے لوٹتے رہے۔ خورشید شاہ کا یہ کہنا کہ سیاستدان ”پو ِتر“ ہوتے ہیں اور کرپشن ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہے۔ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ خورشید شاہ صرف اپنا سابقہ 5سالہ ریکارڈ ہی ملاحظہ کرلیں جن کے وزیراعظم گیلانی سیلاب زدگان کےلئے دیا گیا قیمتی ہار بھی ہڑپ کر گئے تھے۔ زرداری دور میں دہشت گردی کے خاتمے کےلئے آٹے میں نمک کے برابر بھی جدوجہد نہیں کی گئی بلکہ دہشت گردی میں تیزی لانے کےلئے اقدامات ضرور کئے گئے، مثلاً زرداری صاحب نے 2008ءمیں پھانسیوں پر پابندی عائد کردی، جس سے قاتلوں اور دہشت گردوں کو امن تباہ کرنے کےلئے کھلی چھوٹ ملی گئی، زرداری صاحب کا مقصد شاید محترمہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو بچانا اور تحفظ فراہم کرنا تھا۔ موجودہ حکومت بھی ان جہنمی دہشتگردوں سے ”مذاکرات“ میں لگی رہی، زرداری صاحب کی مانند موجودہ حکومت نے بھی پھانسیوں پر پابندی کو ہی مناسب سمجھا، کیوں کہ بقول پرویز رشید پھانسیاں دینے سے یورپی یونین والے ناراض ہوتے تھے اور امداد بھی بند کردیتے، یہ سیاستدانوں کی سوچ اور حکمت عملی تھی، وہ تو اللہ بھلا کرے جنرل راحیل شریف کا جو کہ مردِ مجاہد اور مردِ مومن ہیں، جنہوں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم مصمم کیا اور وہ پوری جوانمردی واستقامت کیساتھ منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں، پھانسیوں پر عملدرآمد بھی اسی مردِ مجاہد نے جاری کرایا، فوجی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے دہشت گرد سوچ اور انکے سہولت کاروں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ فرقہ واریت بھی دہشت گردی کو ہر طرح سے ہوا دیتی ہے سہولت کار کون ہے؟ جب جہنمی حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں واصل جہنم ہوا تو وطن عزیز میں کئی حضرات نے اس جہنمی کو ”شہید“ کا خطاب دیا وہ سب سہولت کار ہی تو ہیں، فضل الرحمن سے جب پوچھا گیا تھا تو انہوں نے لفظ ”شہید“ کی توہین یہ کہہ کر کی کہ امریکہ کے ہاتھوں اگر کوئی کتا بھی مارا جائے وہ بھی شہید ہے حالانکہ وکی لیکس کیمطابق فضل الرحمن نے امریکہ سے پاکستان میں وزیراعظم بننے کی درخواست بھی کی تھی۔ موصوف کے والد صاحب بھی پاکستان کے مخالف تھے۔ صحافی بھی کچھ ایسے ہیں جن کو سہولت کاری میں ”سکون“ ملتا ہے۔ لال مسجد سے برقعہ پہن کر فرار ہونیوالے مولوی صاحب ببانگ دھل سہولت کاری کا اعلان کرتے ہیں۔ مگر ان کےخلاف کوئی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ اگر ڈاکٹر عاصم پر دہشت گردی کا الزام درست ثابت ہوتا ہے تو سیاستدانوں کےخلاف بھی چھان بین ہونی چاہیے۔ یہ تو واضح ہے دہشتگردوں کے عزائم صرف اور صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے اور پیسے کے لالچ میں وہ سب کچھ کررہے ہیں، مسلمان تو چیونٹی بھی پاﺅں کے نیچے مر جانے سے اللہ سے ڈرتا ہے۔ انڈیا، اسرائیل سمیت غیر اسلامی ممالک وطن عزیز میں دہشت گردی کروانے کےلئے مسلمانوں میں موجود ”منافقین“ کا استعمال کر رہے ہیں۔ فرقہ واریت پر قابو پانا ہوگا۔ اسلام سَلَم سے ہے جس کے معنی سلامتی و امن کے ہیں، اس کے فروغ کےلئے ہر مسلمان کو کام کرنا ہوگا، جو بھی ”قبیلے“ اور ”پارٹیاں“ قیام پاکستان کی مخالف تھیں ان پر بھی نظر رکھنا ہوگی جو کہ آج کل پاکستان میں اقتدار کے مزے بھی لوٹتے ہیں مگر دشمنی میں بھی سبقت لے جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کے خاتمے کےلئے ہر محب وطن پاکستانی شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انتہا پسندی یا دہشت گردی کے اسباب میں غربت، جہالت، بیماری، معاشی ومعاشرتی ناانصافیاں اور بلاتفریق قانون پر عملدرآمد نہ ہونا بھی ہے۔ ان سب اسباب پر قابو پانا بھی اشد ضروری ہے۔ جب ایک طبقہ کرپشن کر کے اربوں روپے لوٹ لے جاتا ہے اور کوئی ”ثبوت“ بھی نہیں چھوڑتا تو دیگر طبقات میں نفرتوں کا جنم لینا یقینی ہوتاہے۔ انشاءاللہ تعالی پاکستان دہشت گردی کے فتنے پر ضرور اور جلد قابو پا لے گا اور دہشت گردوں کے عزائم خاک میں مل جائینگے اور وطن عزیز قائم ودائم ہی رہے گا، ملک کے تمام سکیورٹی اداروں پر بھی نظر رکھنا ہوگی کہ ان کی صفوں میں کوئی دہشت گردوں کا سہولت کار تو موجود نہیں؟