جنرل راحیل کو ایکس ٹنشن کیوں؟
جنرل میکارتھر کی جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا میں شہرت اورامریکیوں میں مقبولیت عروج پر تھی۔اسے امریکی جنگی ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔جاپانیوں سے امریکی جنرل ڈگلس میکارتھر نے ہتھیار ڈلوائے۔ اسکے بعد 72 لاکھ جاپانی فوجیوں کو قیدی بنایا گیا۔ انکے تجربات کے پیش نظرانہیں جنگ کوریا میں شمالی کوریا کیخلاف عالمی فوج کی کمانڈ سونپی گئی۔ چین شمالی کوریا کی پشت پر تھا۔ جنرل میکارتھر چین کی مداخلت روکنا چاہتا تھا۔ اس کیلئے اسکی تجویز تھی کہ ایک ایٹم بم چین پر بھی برسا دیا جائے۔ صدر ہیرو ٹرومین نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ صدر ہیری ٹرومین نے جنرل میکارتھر کوبظاہر اس معاملے میں اختلافات کی بنا کوریا کی کمان سے سبکدوش کردیا۔ ٹرومین کو یہ بھی غصہ تھا کہ وہ اس خطے کے دورے پر گئے تو میکارتھر ملاقات کے طے شدہ وقت سے آدھا گھنٹہ لیٹ پہنچے تھے۔ یوں امریکی فوجی ہیرو کا تابناک کیرئیر ناخوشگوار انداز میں اختتام کو پہنچا۔ جنرل مےکارتھر 1951ءکو امریکہ پہنچے تو انکا فوجی ہےرو کے طور پر استقبال کیا گیا۔ ان پر اس قدر پھول نچھاور کئے گئے کہ بلدیہ کو مسلسل تین روز تک صفائی کرنا پڑی۔میکارتھر کوسینٹ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی گئی تو ا نہیں 30 مرتبہ خطاب اس لئے روکنا پڑا کہ ارکان اپنی سیٹوں سے اٹھ کر تالیاں بجاتے ہوئے خراج تحسین پیش کررہے تھے۔جنرل میکارتھر جیسے وار ہیرو کو سبکدوش کرنے کے بعد امریکی صدر ٹرومین کی ریٹنگ 22 فیصد تک گر گئی ، امریکی عوام صدر کا محاسبہ بھی کرنا چاہتے تھے۔آج جنرل راحیل شریف کی پاکستانیوں میں شہرت و مقبولیت میکارتھر کی امریکیوں میں مقبولیت سے کہیں بڑھ کر ہے۔
عبدالقادر بلوچ نے گزشتہ سال جنرل راحیل شریف کو ایماندار، پروفیشنل،محب وطن اور سیاست سے لاتعلق رہنے والا سولجر قرار دیا تھا۔وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے یہ بھی کہا۔” جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بننے کیلئے کوئی لابنگ نہیں کی۔ شاید، شاید اسی وجہ سے ان کو آرمی چیف بنایا گیاہے۔“ بلاشبہ جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بننے کیلئے لابنگ نہیں کی ہو گی مگراب انکی مدت ملازمت میں توسیع کےلئے لابنگ ساتویں آسمان پر ہے حالانکہ ان کی 3سال کی مدت میں سے ابھی سوا سال کا عرصہ پڑا ہے۔
اکانومسٹ نے لکھا ہے۔”پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سٹار بن کر عوام کے دلوں میں گھر کر رہے ہیں۔ انکی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے پاک فوج کے وقار کو بحال کیا ہے اوراسے نئی شان وشوکت سے نواز ا ہے۔خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے عہدے کی میعاد میں تین سال تک کی توسیع کردی جائے گی۔اس حق میں بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں جن میں پرویزمشرف کی آواز بھی شامل ہے۔ لاہور کے ضمنی انتخابات سے متعلق پوسٹرز ہوں یا ساحلی شہر کراچی کے بل بورڈ ز ہر جگہ جنرل راحیل شریف کی تصاویراپنی چمک دمک کے ساتھ آویزاں ہیں۔“
اکانومسٹ نے عام پاکستانیوں کے دل کی بات کی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی سیاستدانوں سے بڑھ کر عوام میں پذیرائی انکے دہشت گردوں، کراچی کے بھتہ مافیا، کرپٹ اور جرائم پیشہ عناصر کیخلاف اقدامات ہیں۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ کراچی کا امن کافی حد تک بحال ہو گیا۔ سندھ میں کرپٹ لوگ پکڑے گئے ہیں اور پنجاب میں بھی نیب کچھ متحرک ہے۔ لوگ امید کرتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے جس طرح کراچی میں کرپٹ لوگوں کے گرد رینجرز کے ذریعے آہنی حصار قائم کردیا ہے، پنجاب اور بلوچستان میں بھی کرپٹ لوگوں کا اسی طرح محاسبہ ہوگا۔ کرپشن نے ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردیں اور ملک عالمی مالیاتی اداروں کے قرض کے شکنجے میں جکڑا جا چکا ہے۔ ان اداروں سے حاصل کئے گئے قرض کا ایک بڑا حصہ سود کی ادائیگی اور دوسرا حصہ قرض لینے والی حکومتی شخصیات کے شکم میں چلا جاتا ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار سے ہر پاکستانی تنگ ہے۔ جنرل راحیل شریف اگر عوام کی توقعات کے مطابق دہشت گردوں کے مکمل ممکنہ خاتمے اور کراچی کا امن بحال کرانے کی طرح پورے ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ لوگوں کو انجام تک پہنچا دیتے ہیں تو یقینا وہ پاکستان کیلئے امریکی میکارتھرسے بڑھ کرثابت ہوں گے۔ میکارتھرنے صرف ایک شعبہ ”جنگی محاذ“ پر کامیابیاں حاصل کر کے امریکیوں کے دل میں گھر کیا،راحیل شریف کے سامنے بیک وقت پانچ محاذ ہیں۔دہشتگردی کے خلاف جنگ،بھارت کا مقابلہ،افغانستان کی محاذ آرائی، کراچی میں امن کے دشمنوں سے لڑائی،کرپشن کے خاتمے کا معرکہ ۔
رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ فوج کے پاس کرپشن کے خاتمے کا نہیں دہشت گردی کے خاتمے کا مینڈیٹ ہے۔ فوج اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کررہی، دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کو پکڑ رہی ہے جس پر پیپلزپارٹی کی قیادت بلبلا اٹھی اور رانا ثناءاللہ جیسے لوگوں کو اپنا انجام بھی بخیر نظر نہیں آتا۔ ابھی دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ ہونا ہے۔ آجکل دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے ستارے گردش میں ہیں تو دہشتگردوں کے سرپرستوں، ساتھیوں اور صلاح کاروں کی قسمت کا فیصلہ بھی ہونے کو ہے ۔ ہر کرپٹ سیاستدان بلاشبہ دہشتگردوں کا معاون اور ہمدرد نہیں، فوج ان پر ہاتھ ڈال رہی ہے نہ ڈالے گی مگر نیب اور ایف آئی اے کو متحرک و فعال ضرور کیا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کے ماتحت یہ ادارے کرپٹ لوگوں کو پکڑیں گے تو اس پر رانا ثناءاللہ جیسے لوگوں کو فوج کے مینڈیٹ سے تجاوز کا اعتراض بھی نہیں ہوگا۔ پنجاب میں کرپٹ لوگوں کے احتساب کا سلسلہ پی پی پی کی لیڈر شپ سے شروع ہو چکا ہے۔ رانا مشہود سے بھی نیب نرم گرم پوچھ گچھ جاری ہے۔ ایسے میں خواجہ سعد رفیق کا بیان بڑا معنی خیز ہے کہ چند ماہ سے حکومت کو کام سے روکا جا رہا ہے۔ بھاری مینڈیٹ کی حامل حکومت کو بھلا کام سے کون روک سکتا ہے۔ تاہم اس بیان سے لیگی حلقوں کے اندر بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔شاید یو این او اجلاس کے بعد مال بنانے والے سیاستدان احتساب کے کٹہرے میں کھڑے پلی بارگیننگ کی بھیک مانگتے دکھائی دیں۔فوج پس منظر میں رہ کر بلا امتیاز کرپشن اگلوا رہی ہے تو سوائے کرپٹ لوگوں کی اپنی ذات کے ہراس اقدام کی تحسین بھی کررہاہے۔ یقین جانیں! سیاسی پارٹی کے کارکنوں سے بات ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں لوٹ مار کرنے والوں کو رگڑ دیں۔
دہشت گردوں کے خلاف جنگ جنرل راحیل شریف نے شروع کی۔ سیاسی حکومت اس میں خوشی سے یا بادل نخواستہ فوج کے ساتھ ہے۔اسکا بجا طور پر کریڈٹ حکومت اور پارلیمنٹ کو بھی جاتا ہے۔سب کی بات نہیں ہورہی،کرپٹ سیاستدانوں کواس کریڈٹ زیادہ اپنا مال اور اقتدار عزیزہے۔ جنرل راحیل شریف جس طرح فعال ہیں وہ اپنی سوا سال کی باقی مدت کے دوران اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر اپنی ریٹائرمنٹ تک وہ کرپشن اور دہشت گردوں کے مکمل خاتمے میں کامیاب نہیں ہوتے تو دونوں مشن اور مقاصد ادھورے رہ جانے کا خدشہ ہے۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کی جنگ راحیل شریف کی جنگ ہے۔ وہی اس کو منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ جنگ اگر منطقی انجام تک پہنچتی ہے تو بہت سے سیاستدانوں کی خیر نہیں جن کی اکثریت دہشت گردوں کی معاون نہیں تو قومی وسائل کا کباڑہ کرنے میں ضرور ملوث ہے اس لئے کرپٹ سیاسی لیڈر اور کراچی میں امن کے دشمن جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔
جنرل کیانی کو ایک سمجھوتے کے تحت یکمشت تین سال کی ایکسٹینشن دے دی گئی۔ بہت سے تجزیہ کاروں، محب وطن سیاستدانوں اور عوام کی اکثریت کی بھی رائے اور خواہش ہے کہ جنرل راحیل شریف کو انکے مشن کی تکمیل تک آرمی چیف کے عہدے پر برقرار رکھا جائے۔ میجرفاروق نذیر یقین سے کہتے ہیں کہ جنرل راحیل اپنے مشن کی تکمیل کے بعد خود گُڈبائی کہہ کر چلے جائیں گے۔