ذوالفقار علی بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ
معروف قانون دان اور سیاستدان عبدالحفیظ پیرزادہ بھر پور زندگی بسرکرنے کے بعد یکم ستمبر کو وفات پا گئے۔ آپ کا شمار بھٹو صاحب کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ 1973ءکے آئین کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس آئین کے بارے میں ازاں بعد پیرزادہ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ آئین ہمارے لئے قابل قبول نہیں کہ چھوٹے صوبوں کو آئین کے مطابق ان کے حقوق نہ دئیے گئے۔ گویا وہ سمجھتے تھے کہ آئین میں موجود وعدوں پر عمل درآمد نہ کیا گیا۔
1985ءمیں عبدالحفیظ پیرزادہ اور ممتاز علی بھٹو کو پیپلزپارٹی سے نکال دیا گیا۔ پیرزادہ کا موقف تھا کہ جب حقیقی سیاست اور روایات سے ہٹ کر لاشوں کی سیاست کی جائے تو ایسا ہوتا ہے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو زندہ رہتے تو میں ان کو سیکنڈ کرتا یعنی ان کے بعد وزیراعظم ہوتا۔
عبدالحفیظ پیرزادہ، بھٹو صاحب کے وکیل بھی تھے۔ ان کی جیل میں بھٹو صاحب سے تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی۔ 29 ملاقاتیں ہوئیں۔ آخری ملاقات کے بارے میں عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب کا کہنا تھا کہ سلاخوں کے پار نہیں بلکہ باہر صحن میں ملاقات ہوئی۔ بھٹو صاحب کے دو نقطہ نظر تھے۔ ایک یہ کہ کیس جتنا لمبا ہو گا، ان کو فائدہ ہو گا مگر میں اتفاق نہیں کرتا تھا۔ اس لئے کہ کارکن منتشر ہو رہے تھے۔ کارکنوں میں وہ دم نہیں رہا کہ گلیوں میں آ سکیں۔ سنٹرل کمیٹی کا فیصلہ تھا کہ باہر نہیں نکلنا۔ بے نظیر بھٹو نے بھی مجھے خط لکھا کہ تحریک نہیں چلانی۔ دوسری وجہ یہ تھی ، بھٹو صاحب سمجھتے تھے کہ بیرونی طاقتیں مداخلت کریں گی۔
عبدالحفیظ پیرزادہ نے بتایا کہ بھٹو صاحب نے جیلر یار محمد سے کہا۔ یارو (بھٹو صاحب یار محمد کو یارو کہہ کر مخاطب کرتے تھے) تم سمجھتے ہو کہ مجھے پھانسی دو گے تو ایسا کام آسان نہیں۔ جواب میں یار محمد کہتا۔ صاحب یہ دیکھ نہیں رہے کہ پھانسی گھاٹ آپ کو پھانسی دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔
یہ آپ کے لئے ہی تیاری ہو رہی ہے۔
بھٹو صاحب مجھے جو پیغام دیتے وہ لکھ لیتے۔ کچھ باتیں بھٹو صاحب خود لکھ کر پیرزادہ صاحب کو دیتے۔
عبدالحفیظ پیرزادہ نے بتایا کہ بھٹو صاحب کے جیل جانے کے بعد فاروق لغاری کے گھر میٹنگ ہوئی اس میٹنگ میں غلام مصطفیٰ کھر نے تجویز پیش کی کہ پارٹی کا چیئرمین غلام مصطفیٰ جتوئی کو مقرر کر دیا جائے تو بھٹو صاحب بچ جائیں گے۔
میں نے اس کی مخالفت کی۔ اس میں شک نہیں کہ غلام مصطفیٰ جتوئی میرا قریبی دوست ہے۔ سیاسی طور پر ہم ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ سیاست اپنی جگہ اور دوستی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ شیخ رشید نے بھی مخالفت کی۔ ان کا موقف تھا وڈیرہ کیسے چیئرمین ہو سکتا ہے میں سینئر وائس چیئرمین ہوں۔ میرا حق بنتا ہے کہ چیئرمین مجھے مقرر کیا جائے۔ پیر زادہ صاحب کا کہنا تھا میں نے محسوس کیا کہ پارٹی میں پھوٹ پڑ رہی ہے۔ شیخ رشید کی حمایت میں کارکن زیادہ تھے وہ زیادہ تر جنگ جو اور بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ گومگو کا معاملہ تھا۔ دونوں طرح مشکل یعنی نہ روئے رفتن نہ پائے ماندن۔ بھٹو صاحب کو جیل گئے ہوئے چار پانچ روز بھی نہیں ہوئے کہ پارٹی ٹوٹ رہی تھی۔ میں ملک نور حیات نون کے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا میں نے ان سے اور ممتاز علی بھٹو سے مشورہ کیا۔
شیخ رشید کا موقف تھا کہ پارٹی تقسیم ہو رہی ہے۔ اجلاس کل تک ملتوی کر دیا جائے۔ جیل میں بھٹو صاحب سے میں نے ساری صورتحال بیان کی انہیں تجویز پیش کی کہ پارٹی کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے بیگم نصرت بھٹو کو قائم مقام چیئرمین مقرر کیا جائے۔ مصطفیٰ کو اس بات پر مجھ سے ناراض ہوئے کہ تم بھٹو صاحب کے وکیل ہو۔ ان سے ملتے ہو اور اپنی بات منوانا چاہتے ہو۔ عبدالحفیظ پیرزادہ اپنے آپ کو پاکستان پیپلز پارٹی کا بانی ممبر کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو سمیت کسی کو حق نہیں کہ مجھے پارٹی سے نکال دے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ جب عبدالحفیظ پیرزادہ کو پیپلزپارٹی سے نکال دیا گیا تو انہوں نے احتجاج کیا اور نہ عدالت گئے۔ ان کا موقف تھا کہ آج جو پیپلزپارٹی ہے میں اس میں نہیں رہنا چاہتا کہ پارٹی کے لیڈرز پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور رہنماﺅں پر کرپشن کے جو الزامات ہیں، میرے اوپر ہوتے میں ڈوب مرتا۔ میرے کپڑے صاف ہیں اور میں ان کو گندا نہیں کرنا چاہتا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب اب اس دنیا میں نہیں۔ فیصلہ اللہ کی عدالت میں ہو گا کہ کس کے کپڑے صاف ہیں اور کس کے گندے؟