مشرف کی بینظیر کو دھمکی آمیز کال 15 منٹ تک جاری رہی: مارک سیگل کا بیان ریکارڈ
واشنگٹن ،راولپنڈی(صباح نیوز+نوائے وقت رپورٹ) امریکی صحافی مارک سیگل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 25ستمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کی دھمکی آمیز کال وصول کی تھی۔ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں مارک سیگل نے جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں جاکر بیان ریکارڈ کروایا۔ ان کے وکیل فاروق نائیک بھی ساتھ تھے۔ مارک سیگل نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے یہ کال امریکی سینٹر ٹام لینٹوس کے دفتر میں وصول کی تھی کال بے نظیر بھٹو کے پاکستان آنے سے 3ہفتے قبل کی گئی بے نظیر بھٹو کال سننے کے بعد کافی پریشان نظر آئی تھیں اور بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ مجھے مشرف کی طرف سے ابھی ابھی پریشان کن کال آئی ہے۔ بے نظیر نے بتایا کہ مشرف نے دھمکیاں اور گالیاں دی ہیں اور الیکشن سے قبل پاکستان نہ آنے کا کہا ہے اور کہا کہ پاکستان میں آپ کی جان کو خطرہ ہے مشرف نے بے نظیر کو کہا کہ ان کی سیکورٹی کا دارومدار میرے ساتھ تعلقات پر ہے 26 اکتوبر کو بے نظیر نے مجھے ای میل کی اگر مجھے مار دیا گیا تو ذمہ دار مشرف ہوںگے بے نظیر نے کہاکہ میری زندگی کو خطرہ ہے کچھ ہوا تو یہ میل اوپن کر دینا مارک سیگل نے کہا ہے کہ میں نے بے نظیر کی ای میل نمائندہ سی این این وولف والٹرز کو بھیج دی اور وولف سے کہا ای میل امانت ہے بے نظیر کو کچھ ہوا تو اوپن کر سکتے ہیں۔ بے نظیر حملے میں جاں بحق ہوئیں تو نمائندہ سی این این کا فون آیا وولف کو بے نظیر کی خواہش کے مطابق میل اوپن کرنے کی اجازت دے دی۔ مارک سیگل بے نظیر کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے۔ انہوں نے کہ کہ بے نظیر کو وہ سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی جس کا وہ استحقاق رکھتی تھیں۔ انہوں نے کہا دھمکی آمیز کال پندرہ منٹ تک جاری رہی اس دوران بے نظیر غصے سے کانپ رہی تھیں اور پسینے سے شرابور تھیں۔ بے نظیر نے بتایا کہ انہوں نے مشرف کو خط لکھا جس میں لکھاکہ آپ کے کچھ اعلیٰ افسر میرے قتل کی منصوبہ بندی کررہے ہیں دوران بیان پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی مارک سیگل پر بار بار اعتراض کرتے رہے امریکی صحافی نے کہا کہ ان کی ریڈز ہلٹن ہوٹل میں بے نظیر سے الوداعی ملاقات ہوئی۔اس مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار علی نے برطانوی خبررساں ادارے کو بتایا کہ امریکی شہری کے بیان کے لئے راولپنڈی کے کمشنر آفس میں عارضی عدالت قائم کی گئی۔ سابق وزیراعظم نے اپنی موت سے دس روز پہلے مارک سیگل کو جو ای میل بھیجی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ ان کی جان کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ وکیل استغاثہ کے مطابق اس ای میل میں بینظیر بھٹو نے بھی کہا ہے کہ اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف نے انہیں سکیورٹی کے لیے نہ تو جیمرز دیئے ہیں اور نہ ہی انہیں دی جانے والی گاڑی کے لاک ٹھیک ہیں۔انہوں نے ای میل میں سابق وزیر اعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بیبظیر بھٹو نے مارک سیگل سے کہا تھا کہ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو اس ای میل کو عام کردیا جائے۔ اس سے پہلے اس مقدمے کے مدعی پولیس انسپکٹر کاشف ریاض کا بیان قلمبند کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی خدشات سے پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا، تاہم پولیس نے ان کی سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے تھے کیس کے مدعی انسپکٹر کاشف کا کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو نے جلسہ گاہ آتے ہوئے بھی سر گاڑی کے سن روف سے باہر نکال رکھا تھا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق مارک سیگل نے کہا کہ میں 1984ء سے بے نظیر بھٹو کو جانتا ہوں۔ فون کی سکرین پر مشرف لکھا ہوا آیا جو بے نظیر بھٹو نے مجھے دکھایا۔مارک سیگل نے کہا کہ مشرف 2008ء کے الیکشن سے قبل بے نظیر کی واپسی کے خلاف تھے۔ امریکی سنیٹر ٹام نیٹیوس سے ہماری مشترکہ ملاقات طے تھی۔ ٹام کی اہلیہ نے ہمیں دفتر میں بٹھا دیا۔ اس دوران بے نظیر کے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے مسٹر ٹام سے کہا بے نظیر کو فون سننے کے لیے پرائیویسی چاہیے۔ بے نظیر واپس آئیں اس دوران سینیٹر ٹام آئے اور 15، 20 منٹ ہماری ملاقات ہوئی۔ اس دوران بے نظیر پریشان رہیں۔ مارک سیگل نے انکشاف کیا کہ کراچی میں بینظیر کے استقبال کے دوران ان کے ٹرک پر موجود افراد فون پر بات کر رہے تھے۔ اس کی مطلب تھا کہ جیمرز کام نہیں کر رہے تھے۔ بینظیر کراچی دھماکے کے بعد بہت پریشان تھیں۔ مارک سیگل کا بیان دو گھنٹے جاری رہا۔ سیگل نے کہا کہ کلرساز دھماکے کے بعد میری ان سے بات ہوئی تھی۔ بینظیر نے کہا کہ انہیں پروٹوکول کے مطابق سکیورٹی نہیں دی گئی۔ 26 اکتوبر 2007ء کو بی بی کی ای میل میرے ذاتی اکاؤنٹ پر آئی۔ ای میل کا عنوان تھا موسٹ ارجنٹ۔ ای میل کی مصدقہ کاپی تفتیشی ٹیم کو فراہم کر دی تھی۔ میں نے بی بی سے پوچھا کہ یہ ای میل مجھے کیوں بھجوائی ہے؟ بی بی نے کہا کہ تم دلیر اور قابل اعتماد ہو اس لئے تمہیں ای میل کی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ مارک سیگل نے ایک سیدھا سادا بیان بھیجا کہ بینظیر نے انہیں ای میل بھیجی۔ مشرف کے وکیل نے کہا کہ کیس پر جرح کیلئے کئی دن درکار ہیں۔ آٹھ سال گزر گئے اب کیس کا فیصلہ ہو جانا چاہئے۔ بینظیر کو ملک سے باہر رکھنے کی کوشش اور دھمکیاں دی گئیں۔ اگر مشرف نے جیمبر لگائے ہوتے تو کارساز میں لوگ نہ ہوتے۔ مارک سیگل کے بیان کے بعد ثابت ہو گیا کہ واقعہ میں کون لوگ ملوث تھے؟ مشرف کے وکیل الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ جس ای میل کا حوالہ دیا گیا وہ قانون کے طور پر ریکارڈ پر نہیں آ سکتی۔ مشرف کی کال کا ریکارڈ حاصل کرنا ہمارا نہیں تفتیشی افسر کا کام تھا۔ مارک سیگل نے آئی او کو دئیے گئے بیان سے ہٹ کر 8 صفحے کا بیان دیا۔ میں نے مارک سیگل کے لکھے گئے بیان، ای میل اور دی گئی دستاویز پر اعتراض کیا۔ مارک سیگل بینظیر کا ملازم تھا، وکیل پاکستان سے لیا۔ صدر کا کام سکیورٹی دینا نہیں ہوتا، اداروں کا کام ہوتا ہے۔ مشرف نے بینظیر کو فون کیا تو ریکارڈنگ آ سکتی تھی، کچھ بھی ریکارڈ پر نہیں۔ پراسیکیوٹر چودھری اظہر کے مطابق مارک سیگل کا بیان مشرف کی حد تک بہت اہم ہے۔ ملزموں کی وجہ سے کیس 6 سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ بیانات مکمل ہو جائیں تو کیس جلد مکمل ہو جائیگا۔ صرف پرویز مشرف کے وکلاء کی وجہ سے کیس ملتوی ہوا۔پاکستان آنے سے پہلے بے نظیر بھٹو نے کہا ہو سکتا ہے ہماری ملاقات نہ ہو۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں مارک سیگل نے کہا امید ہے اس مہینے کیس کی کارروائی ختم ہو جائے گی۔ میں جو جانتا تھا میں نے بتا دیا ہمیں انصاف کی امید ہے۔ بے نظیر کی شہادت کے موضوع پر بات کرنا آسان نہیں تھا۔