75 ملکوں نے سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کا ویٹو حق محدود کرنیکی حمایت کر دی : روس‘ چین کی مخالفت
نیویارک ( آن لائن )اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رکن متعدد ممالک نے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے حق استرداد (ویٹو) کے استعمال کو محدود کرنے کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔فرانس کی اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ پانچ مستقل رکن ممالک نسل کشی اور قتل عام کے کیسوں میں سلامتی کونسل میں قراردادوں پر رائے شماری کے وقت اپنے ویٹو کے اختیار کو استعمال نہیں کریں گے۔ یورپ،افریقہ،لاطینی امریکہ اور براعظم ایشیا کے 75 ممالک نے اس تجویز کی حمایت کی ہے۔فرانسیسی حکام نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ مزید ممالک بھی اس کی حمایت پر آمادہ ہوجائیں گے۔اس وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی کل تعداد ایک سو ترانوے ہے۔ فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں فابیئس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام جیسی صورت حال کے خاتمے کے لیے مزید حمایت کا اظہار کیا جائے گا۔شام میں متحارب فورسز کی جانب سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے باوجود اس ویٹو اختیار کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوئی اقدام نہیں کرسکی ہے اور وہ شام کے معاملے میں محض عضو معطل ہوکررہ گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’فرانس پہلے ہی یہ پختہ وعدہ کرچکا ہے کہ وہ قتل عام اور نسل کشی کی صورت میں اپنا ویٹو کا حق استعمال نہیں کرے گا۔ توقع ہے کہ دوسرے ممالک بھی فرانس کی پیروی کریں گے‘‘۔ تاہم سلامتی کونسل کے چار دوسرے مستقل ارکان امریکہ، چین،برطانیہ اور روس نے ابھی تک اس فرانسیسی اعلامیے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔حق استرداد (ویٹو) کے اختیار کو محدود کرنے سے متعلق فرانس کے تیارکردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سلامتی کونسل کوقتل عام جیسی صورت حال کے خاتمے کے لیے قرارداد کو ویٹو کا اختیار استعمال کرکے مسترد نہیں کردینا چاہیے۔ہم اس امر کی ضرورت پر بھی زور دیں گے کہ ویٹو کوئی امتیازی سہولت نہیں ہے بلکہ ایک بین الاقوامی ذمے داری ہے۔ اقوام متحدہ میں متعین سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے اس اقدام کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ اس پر مثبت انداز میں غور کررہا ہے جبکہ روس اور چین دونوں کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
ویٹو