’’کیا مصیبت گھر آ گئی‘‘ کراچی میں خواجہ سرائوں کے آتے ہی لوگ ٹیکس بھرنے پر تیار
کراچی (نیٹ نیوز) کراچی کی رہائشی خواجہ سرا اکبری کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے محکمہ محصولات میں ٹیکس وصولی کے عملے میں شامل ہیں۔ اسی محکمے میں ان کے ساتھ دیگر 7 خواجہ سرا بھی کام کرتے ہیں۔ اپنے کام کے بارے میں اکبری بتاتی ہیں کہ اپنے دروازے پر خواجہ سرا کو دیکھ کر لوگ ٹیکس بھرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ’جب ہم ریکوری کے لئے کسی کے گھر جاتے ہیں تو وہ گیٹ کھولتے ہی شرما جاتے،گھبرا جاتے ہیں کہ یہ کیا مصیبت آ گئی ہمارے گھر۔ ہمیں دیکھ کر بولتے ہیں کہ ہم ٹیکس بھر دیں گے پلیز آپ یہاں سے جائیں۔‘ اکبری نے اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے ان کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔’ہمیں کوئی بس میں نہیں بٹھاتا جس کے باعث ہمیں رکشے سے آنا جانا پڑتا ہے جس میں 400 روپے کرایہ لگ جاتا ہے۔ گھر میں چھوٹے بہن بھائی اور ان کے بچے ہیں جنہیں میں سپورٹ کرتی ہوں۔ اب 15 ہزار روپے میں یہ سب کیسے ہو۔ اسی لئے شام کو فنکشن میں جا کر ناچ گانا کر کے کچھ پیسے بنا لیتی ہوں جس سے گھر کا خرچہ پورا ہوتا ہے۔‘ بی بی سی کے مطابق خواجہ سرا اکبری کی کہانی پاکستان کے کسی بھی دوسرے خواجہ سرا کی کہانی سے مختلف نہیں۔ انہیں ایک طرف اپنے اور اپنے گھر والوں کے اخراجات پورے کرنے کی فکر ہے تو دوسری جانب معاشرے میں صنفی امتیاز کا بھی سامنا ہے۔ محکمہ فلاح و بہبود سندھ نے خواجہ سراؤں کو مختلف پیشوں میں تربیت کے لئے کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں سینٹرز کھول کے دئیے۔ اِن سینٹرز کا بنیادی مقصد تو انہیں لکھنا پڑھنا، سلائی کڑھائی، کھانا بنانا، بیوٹیشن، ڈانس میوزک سمیت کمپیوٹر وغیرہ کا کورس کرانا ہے لیکن اکثر یہ جگہیں شیلٹر ہومز کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہیں۔ حکومتِ سندھ کی سرپرستی میں چلنے والے ان سینٹرز میں خواجہ سراؤں کی مختلف پیشوں میں تربیت کے لئے عملہ تو موجود ہے لیکن عموما یہ تربیتی مراکز ویران نظر آتے ہیں۔ محکمہ فلاح و بہبود کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد رحیم لاکھو نے کہا کہ ایک تو خواجہ سراؤں میں ہنر سیکھنے کا جذبہ کم ہے اور دوسرا وہ چاہتے ہیں کہ تربیت کے دوران ان کا وظیفہ مقرر کیا جائے۔ خواجہ سراؤں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ کم محنت میں باآسانی پیسے ملنے کی وجہ سے بھیک مانگنے سمیت ناچ گانے اور جسم فروشی کو محدود تنخواہ والی باعزت نوکری پر ترجیح دیتے ہیں۔ سندھ حکومت میں خواجہ سراؤں کی نمائندہ رفی خان نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’خواجہ سرا کہتے ہیں کہ ہم کرایہ لگا کر ان سینٹرز سے کوئی کام سیکھ بھی لیں تو ہمیں کونسا نوکریاں دی جا رہی ہیں۔ ہم بے چاری تو ماری جائیں گی نا۔ اس سے بہتر نہیں کہ ہم بھیک مانگنے چلی جائیں تو سو پچاس مل ہی جائیں۔‘ واضح رہے کہ حکومتِ سندھ کے محکمہ فلاح و بہبود نے پچھلے چند سالوں میں صوبے بھر میں 2,500 سے زیادہ خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کی ہے لیکن خود محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے صرف 14 خواجہ سراؤں کو سرکاری نوکریاں دی گئی ہیں جن پر انہیں ابھی تک مستقل نہیں کیا جاسکا ہے۔
خواجہ سرا ٹیکس