بیرون ملک خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر بات کرنا آرمی چیف کا منصب نہیں
خطے میں پائیدار امن کیلئے عالمی برادری کردار ادا کرے‘ دہشت گردی بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ آرمی چیف کا برطانیہ میں خطاب۔ اس وقت جبکہ وزیراعظم میاں نوازشریف یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے علاوہ یواین سیکرٹری جنرل اور دوسرے عالمی قائدین سے ملاقاتوں میں بھی دہشت گردی کے خاتمہ کی پاکستان کی کاوشوں کو بھرپور انداز میں اجاگر کر چکے ہیں اور اس جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کے حوالے سے امریکہ بھی انکے موقف پر قائل ہو کر دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی معاونت کا عندیہ دے رہا ہے‘ آرمی چیف کا اسی ایشو پر بیرون ملک جا کر سیاسی لیڈروں جیسا بیان دینا مناسب نظر نہیں آتا۔ سپہ سالار کی حیثیت سے دفاع وطن کی جو ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے بے شک وہ دہشت گردی کی جنگ میں بحسن و خوبی ادا کررہے ہیں جس پر قوم کی جانب سے انکے اقدامات کی تائید بھی بجا ہے تاہم ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر کسی ملکی یا بیرونی فورم پر بات کرنا انکے منصب کا ہرگز تقاضا نہیں۔ وہ دفاع وطن کیلئے عساکر پاکستان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اپنے ادارے کی مخصوص تقریبات میں تو اظہار خیال کر سکتے ہیں مگر وہ ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر ایسی کسی رائے کا اظہار کرینگے جو سول حکمرانوں ہی کے منصب کا تقاضا ہوتا ہے تو اس سے سول سیٹ اپ کے کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہو گا جیسا کہ بعض حلقوں کی جانب سے ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی بھی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم کو یواین جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران بھی باور کرانا پڑا تھا کہ تمام ریاستی ادارے انکی ماتحتی میں کام کررہے ہیں۔ آرمی چیف کے بیرون ملک دوروں میں عسکری عہدیداروں سے ملاقاتوں اور پیشہ ورانہ امور پر تبادلۂ خیال میں کوئی مضائقہ نہیں تاہم انہیں امور حکومت و مملکت سے متعلق ایشوز پر بات کرنے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بیرون ملک بھی سول انتظامیہ کے معاملات میں عسکری عمل دخل کا تاثر پیدا ہوتا ہے اور حکومتی رٹ کمزور ہوتی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان آج دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے ایک عزم اور جذبے کے ساتھ لڑ رہا ہے جو اس مقصد کیلئے سول اتھارٹی کے یکسو ہو کر کردار ادا کرنے سے ہی ممکن ہوا ہے جبکہ بیرونی دنیا کو اپنے موقف پر قائل کرنے کی ذمہ داری بھی سول حکمرانوں کی ہی ہے اور وہ بخوبی اپنی یہ ذمہ داری ادا کررہے ہیں اس لئے آرمی چیف بیرون ملک اپنی سرگرمیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود رکھیں تو بہتر ہوگا۔