بان کی مون پاکستان بھارت کشیدگی کم کرانیکی خواہش کے باوصف کشمیر پر یواین قراردادیں مؤثر بنائیں
پاکستان کیجانب سے بھارتی دہشتگردی کے ثبوت یواین سیکرٹری جنرل کے حوالے اور بھارتی وزیرخارجہ کی کٹ حجتی
پاکستان نے بھارت کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت اقوام متحدہ کو دے دیئے‘ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے گزشتہ روز یواین سیکرٹری جنرل بانکی مون سے ملاقات کی اور بھارتی دہشت گردی کے ثبوتوں پر مشتمل ڈوزیئر انکے حوالے کیا جس میں بلوچستان‘ فاٹا اور کراچی کی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔ ان ثبوتوں میں تصاویر‘ آڈیوز اور ویڈیوز شامل ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار ایسے ثبوت اقوام متحدہ میں پیش کئے گئے ہیں جن میں پاکستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی سے متعلق حقائق موجود ہیں۔ یہی ثبوت مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کی جانب سے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کے موقع پر بھارت کے حوالے کئے جانے تھے مگر مذاکرات کے ایجنڈے سے بھارتی اجتناب اور مذاکرات کو صرف دہشت گردی کے موضوع پر محدود کرنے کی شرط کے باعث یہ مذاکرات نہ ہو سکے۔ مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے اس حوالے سے گزشتہ روز نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بھارتی دہشت گردی کے ٹھوس ثبوت اقوام متحدہ کے حوالے کر دیئے ہیں‘ ہم تو آج بھی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر بھارت الزام تراشیاں اور دہشت گردی کو سپورٹ کررہا ہے۔
دو روز قبل وزیراعظم نوازشریف نے یواین جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جس مربوط انداز میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی تفصیلات پیش کیں اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی جارحانہ کارروائیوں‘ اقدامات اور منصوبوں سے آگاہ کیا اسکے پیش نظر بھارتی سفاک چہرہ کھل کر اور واضح طور پر عالمی قیادتوں کے سامنے آچکا ہے جس کے پیش نظر امریکی صدر اوبامہ اور بھارت کا دم بھرنے والے اقوام متحدہ کے دوسرے رکن ممالک کی جانب سے بھی بھارت پر پاکستان سے مذاکرات اور کشیدگی کم کرنے کیلئے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں عالمی قیادتوں کو اس امر سے بھی آگاہ کیا تھا کہ پاکستان بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے ثبوت بہت جلد اقوام متحدہ میں پیش کردیگا چنانچہ انکے اس اعلان کے اگلے روز ہی یہ ثبوت عین اس وقت یواین سیکرٹری جنرل کے حوالے کر دیئے گئے جب بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج یواین جنرل اسمبلی سے خطاب کرنیوالی تھیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 67 سال سے قائم بھارتی تسلط‘ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکے جارحانہ اقدامات اور منصوبوں سے اقوام عالم کے مکمل آگاہ ہونے اور پاکستان کی جانب سے بھارتی دہشت گردی اور مداخلت کے ٹھوس ثبوت پیش کئے جانے کے باوجود بھارت پوری ڈھٹائی کیساتھ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی پر ڈٹا ہوا ہے اور پاکستان کو دہشت گردی کا مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ سشماسوراج نے یواین جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے پیش کردہ چار نکاتی امن فارمولے کو بھی مسترد کیا اور یہ بھی باور کرادیا کہ پاکستان کے ساتھ صرف دہشت گردی کے حوالے سے مذاکرات ہونگے جبکہ کشمیر مذاکرات کے کسی ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوگا۔ یہ بھارت کی چالبازی ہے کہ اس نے 1971ء کے سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد دبائو میں آئے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستانی جنگی قیدیوں اور مقبوضہ علاقوں کے معاملات پر بات کیلئے شملہ میں مدعو کیا اور کشمیر ایشو پر موجود اقوام متحدہ کی قراردادوں کو غیرمؤثر بنانے کیلئے انکے ساتھ پاکستان کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر یہ معاہدہ کرلیا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سمیت کسی بھی باہمی تنازعہ پر کسی عالمی فورم سے رجوع نہیں کرینگے اور ہر تنازعہ مذاکرات کے ذریعے خود طے کرینگے۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے مذاکرات کا جو حشر کیا اسکی گواہی قومی سلامتی کے مشیروں کی دو ماہ قبل کی مجوزہ ملاقات تک گزشتہ 45 سال کے دوران ہر سطح کے مذاکرات کو خود بھارت کی جانب سے سبوتاژ کئے جانے کی صورت میں ریکارڈ پر موجود ہے ار یہ ریکارڈ تلخیوں سے بھرا ہوا ہے جن میں پاکستان کی ہر بار مذاکرات کی بے لوث خواہش کے برعکس کشمیر کا تذکرہ ہونے پر مذاکرات کی کوئی بھی بیل منڈھے نہ چڑھنے دینے کی بھارتی رعونت کا ہی عمل دخل رہا ہے۔ پہلے بھارت کی جانب سے جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام پر توڑے جانیوالے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان پر کشمیر میں دراندازی کے الزامات کا ڈھونگ رچایا جاتا رہا اور پھر 2008ء کے آخر میں دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزراء خارجہ کے مذاکرات کے موقع پر ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچا کر نہ صرف ان مذاکرات کی بساط لپیٹی گئی بلکہ پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے الزامات کی پٹاری بھی کھول لی گئی جسے اب بھارتی چالبازیوں اور ہذیان کا مستقل حصہ بنالیا گیا ہے چنانچہ پاکستان جب بھی مذاکرات کی بات کرتا ہے یا کسی عالمی فورم پر کشمیر میں بھارتی مظالم کا معاملہ لے کر جاتا ہے تو بھارت فوراً دہشت گردی کے الزامات والی پٹاری کھول لیتا ہے۔
ہماری یہ بدقسمتی رہی کہ ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران بھی ہمیشہ بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی اور تجارت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس کیلئے ریشہ خطمی ہوتے رہے جبکہ بھارت اپنی مکارانہ چالوں کو ہی آگے بڑھاتا رہا ہے۔ وہ دنیا کا دبائو کم کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام ایشوز پر مذاکرات کا چکمہ دیتا اور مذاکرات کی نوبت آتے ہی مذاکرات کے راستے خود ہی مسدود کر دیتا رہا ہے جبکہ بھارت کی موجودہ بی جے پی سرکار نے تو پاکستان دشمنی کی انتہاء کرتے ہوئے پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی کو ایک لمحہ کیلئے بھی کم نہیں ہونے دیا اور اسکے ساتھ ساتھ پاکستان سے باقاعدہ جنگ کی تیاریاں شروع کرکے مقبوضہ کشمیر کے علاوہ پاکستان سے منسلک آزاد وادیٔ کشمیر کے بھی بھارتی اٹوٹ انگ ہونے کی درفنطنیاں چھوڑنی اور پاکستان کو گیدڑ بھبکیاں لگانا شروع کر دیں جبکہ پاکستان دشمنی پر مبنی اس جارحانہ سوچ کو خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پروان چڑھارہے ہیں جنہوں نے غالباً سقوط ڈھاکہ والے اندراگاندھی کے ’’کریڈٹ‘‘ کے بروزن پاکستان کی سالمیت ہی ختم کرنے کا کریڈٹ لینا اپنے منشور اور ایجنڈے کا حصہ بنایا ہوا ہے اور اس ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی وہ جلدی میں بھی نظر آتے ہیں۔ اسی لئے آج ہر قسم کے عالمی دبائو کے باوجود مودی سرکار انہی نامعلوم الزامات کی پٹاری کھولے بیٹھی ہے جو نریندر مودی کی حلف برداری کے موقع پر وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو بھارت مدعو کرکے تیار کی گئی تھی اور سفارتی ادب آداب کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود مودی کی جانب سے میاں نوازشریف کو پیش کی گئی تھی جبکہ اس بھارتی ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ مودی سرکار نے ایک گھنائونی سازش کے تحت پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کیلئے اسکے مختلف علاقوں میں ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گرد بھجوا کر دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ اس سلسلہ میں کراچی‘ بلوچستان اور پشاور کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں ہونیوالی دہشت گردی میں بھی بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت اور شواہد ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو حاصل ہوئے جبکہ کراچی اپریشن کے دوران متحدہ کے ہیڈکوارٹر سے پکڑے گئے ملزمان نے بھی اپنے بیانات میں بھارتی ’’را‘‘ سے تربیت‘ اسلحہ اور فنڈنگ لینے کا اعتراف کیا جس کی تصدیق لندن میں مقیم متحدہ کے ایک سابقہ عہدیدار محمدانور نے بھی کی۔ ان ثبوتوں کی روشنی میں تو بھارت کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی اس لئے ہمارے حکمرانوں کو پہلے جیسی کسی مصلحت کا شکار ہونے یا دفاعی پوزیشن میں آنے کی قطعاً ضرورت نہیں اور اگر بھارت ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان سے مذاکرات کو صرف دہشت گردی سے مشروط کررہا ہے تو ہمیں بھی اب اسکے ساتھ ’’مذاق رات‘‘ کے کھیل میں شامل ہونے کی کوئی مجبوری لاحق نہیں ہونی چاہیے۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ اوفا مشترکہ اعلامیہ کے ڈرامے کے بعد ہمارے حکمرانوں کو بھی بھارتی چالبازیوں کا مکمل ادراک ہو چکا ہے چنانچہ ہر بھارتی الزام کا اسی کے لب و لہجے میں جواب دیا جارہا ہے اور اسے باور بھی کرایا جا رہا ہے کہ ملک کے دفاع کیلئے عساکر پاکستان مکمل چوکس اور ہوشیار ہیں اس لئے وہ پاکستان سے ’’متھا‘‘ لگا کر علاقائی اور عالمی امن کی تباہی پر منتج ہونیوالی غلطی نہ کرے۔ اسکے باوجود مودی سرکار ہٹ دھرمی پر قائم ہے جس کا مظاہرہ بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے یواین جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حوالے سے بھارتی رعونت کو دہراتے ہوئے کیا ہے تو ہمارے حکمرانوں کو بھی اب بھارت سے مذاکرات کی خواہش اپنی زبان پر نہیں لانی چاہیے۔ اب سارے حقائق یواین سیکرٹری جنرل کی ٹیبل پر موجود ہیں اس لئے وہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کم کرانے کی اپنی اور امریکی صدر اوبامہ کی خواہش کے باوصف کشمیر ایشو پر موجود یواین قراردادوں کو سرد خانے سے باہر نکالیں اور انکی روشنی میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اسی صورت معتبر اور مؤثر ہو سکتا ہے جبکہ اقوام عالم کی نمائندگی کرنیوالے اس ادارے کی اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکامی دنیا کو تباہی کی جانب دھکیل سکتی ہے۔