رَمْزِ اطاعت
ہجرت کے چھٹے 6 سال نبی کریمﷺ نے احرام باندھا اورچودہ سو سے زائد صحابہ کرامؓ کی معیت میں عمرہ کی نیت سے سفر کا آغاز کیا، کفار مکہ کو اس سفر کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے حضور اکرمﷺ کے مکہ میں تشریف فرما ہونے کے بارے میں بڑے رد وکد کا اظہار کیا، آپؐ نے حضرت عمرؓ کو حکم فرمایا کہ اہل مکہ سے مذکرات کیلئے جائیں، (کیونکہ زمانہ جاہلیت میں سفارت کا منصب حضرت عمر کے خاندان میں تھا اور آپؐ کا شیوہ کسی کو اسکی عزت سے محروم کرنیکا نہیں تھا) لیکن انھوں نے مشورہ عرض کیا کہ موجودہ صورتحال میںحضرت عثمانؓ موزوں شخصیت ہیں، سو آپؐ نے حضرت عثمان غنیؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر اہل مکہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں اطمینان دلائیں کہ مسلمانوں کا ارادہ محض بیت اللہ شریف کی حاضری اور عمرہ کی ادائیگی کا ہے۔ ’’اہل مکہ نے حضرت عثمان غنیؓ کو اپنے پاس روک لیا تاکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہے، اس اثناء میں کفار نے حضرت عثمان غنیؓ کو کہا کہ کسی دوسرے مسلمان کو تو نہ ہم مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے اور نہ وہ کعبہ کا طواف کر سکیں گے البتہ آپ ہمارے مہمان ہیں، آپ کو اجازت ہے کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کر لیں، وہ تو سمجھتے تھے کہ عثمان غنیؓ ہماری اس اجازت کو بصد تشکر قبول کریں گے اور فوراً طواف کعبہ میں مشغول ہو جائیں گے لیکن اس عاشق صادق کا جواب سن کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ آپ نے انہیں فرمایا کہ ’’میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک میرا محبوب میرے اللہ کا رسول (ﷺ) طواف نہیں کرے گا۔‘‘حضرت عثمان غنیؓ کے مکہ روانہ ہونے کے بعد بعض صحابہؓ کے دل میں رہ رہ کر یہ خیال چٹکیاں لینے لگا کہ کتنے خوش نصیب ہیں عثمان انہیں مکہ مکرمہ جانے کا موقع مل گیا ہے۔ وہ بیت اللہ کی زیارت کر کے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریںگے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کریں گے اور احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جائیں گے۔ معلوم نہیں ہمیں یہ سعادت نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ اپنے ان جذبات کا اظہار انہوں نے بارگاہ رسالتؐ میں بھی کر دیا۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ وہ کعبہ کا طواف ہرگز نہیں کرینگے جبکہ ہم محصور ہیں اور ہمیں مکہ میں داخلے کی اجازت بھی نہیں‘‘۔ حضرت عثمان غنیؓ جب واپس آئے تو صحابہؓ نے پوچھا کہ آپ نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا، اس مومن صادق نے جواب دیا: ’’اس ذات پاک کی قسم جسکے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اگر میں احرام کی حالت میں کئی سال بھی مکہ میں رہتا۔ تو میں ہرگز طواف نہ کرتا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا پیارا رسولﷺ طواف نہ فرماتا‘‘۔ علامہ ابن قیم نے حضرت عثمان غنیؓ کا جواب یوں رقم کیا ہے آپ نے فرمایا: ’’تم نے میرے بارے میں سوئے زن سے کام لیا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں مکہ میں ایک سال بھی رہتا اورحضور اکرمﷺ حدیبیہ میں تشریف فرما رہتے تو میں ہرگز کعبہ کا طواف نہ کرتا جب تک کہ میرے آقا کریمﷺ طواف نہ کرتے۔‘‘ (زاد المعاد)