کشمیر نہرو سے مودی اور نواز شریف تک
وزیراعظم پاکستان نواز شریف کا جنرل اسمبلی سے خطاب جامع اور واضح تھا۔ انہوں نے کشمیر پر پاکستان کا مؤقف دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا لیکن ہم کشمیر کہانی کا آغاز نہرو سے کرتے ہیں۔ نہرو خاندان کے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ تعلقات بڑے خوشگوار اور دوستانہ تھے۔ نہرو نے مائونٹ بیٹن سے جذباتی اپیل کی کہ گورداسپور اور فیروزپور بھارتی پنجاب میں شامل کیے جائیں حالانکہ دونوں شہروں میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی۔ گورداسپور بھارتی پنجاب کو کشمیر سے ملاتا ہے اور فیروز پور میں ہائیڈرو الیکٹرک جنریٹرز تھے۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہرو کی خوشنودی کے لیے دونوں کلیدی اہمیت کے شہر بھارت کو دے دئیے۔ اس طرح بھارت کا کشمیر پر استحقاق پیدا ہوگیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی خواہش تھی کہ جموں و کشمیر کو سوئٹزر لینڈ جیسی آزاد حیثیت مل جائے مگر بھارت اور پاکستان نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا۔ اکتوبر 1947ء میں برطانیہ نے اپنی فوجیں جموں و کشمیر سے نکال لیں۔ مسلمانوں نے ہندو جاگیرداروں کو زرعی ٹیکس دینے سے انکار کردیا۔ ان کے سکیورٹی گارڈز نے گولی چلادی۔ مسلمان پاکستان کی جانب ہجرت کرگئے۔ قبائلی پٹھان اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لیے اور کشمیر کو ہندوئوں سے آزاد کرانے کے لیے کشمیر کے اندر داخل ہوگئے اور مظفر آباد پر قبضہ کرلیا۔ کشمیر نہرو کی کمزوری تھا ان کے آبائو اجداد کشمیر کے رہنے والے تھے۔ نہرو کے حکم پر سکھ بٹالین کے فوجی کشمیر کے دفاع کے لیے ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر پہنچ گئے اور قبائلی پٹھانوں کو مظفر آباد کی جانب دھکیل دیا۔ پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم نے پاکستان کی افواج کو سری نگرکی جانب پیش قدمی کا حکم دیا۔ بھارت اور پاکستان کی افواج کے سپریم کمانڈر جنرل آکن لیک ہنگامی طور پر پاکستان پہنچے اور قائداعظم سے کہا کہ اگر انہوں نے اپنے احکامات واپس نہ لیے تو وہ پاکستانی افواج کے برطانوی افسروں کو واپس لے لیں گے۔ پاکستان کا چونکہ برطانوی فوجی افسروں پر انحصار بہت زیادہ تھا اس لیے قائداعظم کو پاکستان کے قومی مفاد کے تحت سپریم کمانڈر کی خواہش کو تسلیم کرنا پڑا۔
دسمبر 1947ء میں نہرو نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ کشمیر کے اندر قبائلیوں کی لڑائی پاکستان کا بھارت پر حملہ ہے۔ بھارت نے 3جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شکایت کی کہ پاکستان بھارت کے خلاف جارحیت کررہا ہے لہذا ہنگامی طور پر مؤثر اقدامات اُٹھائے جائیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ محمد ظفر اللہ نے سلامتی کونسل میں پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی آزادانہ رائے سے کیا جائے۔ سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو کشمیر میں غیر جانبدار مبصر کی زیر نگرانی استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کا فیصلہ کیا اور بھارت و پاکستان کو ہدایت کی کہ دونوں پانچ ماہ کے اندر رائے شماری کی تیاری کریں۔ نہرو تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا اور سلامتی کونسل کی قرارداد پر عملدرآمد کرنے پر تیار نہ ہوا۔ بھارت نے 1953ء میں کشمیر میں نام نہاد انتخابات کرائے اور ان کو استصواب رائے کا نام دے دیا۔ شیخ عبداللہ نے سلامتی کونسل کی قرارداد کی حمایت کردی۔ بھارتی حکومت نے ان کو گرفتار کرلیا۔ 26جنوری 1957ء کو کشمیر کی نام نہاد دستور ساز اسمبلی نے آئین منظور کرلیا اور جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قراردے دیا۔ نہرو کی منافقت نے کشمیر کے مسئلے کو حل نہ ہونے دیا اور اس مسئلے کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات آج تک کشیدہ ہیں۔ اقوام متحدہ نے اپنے کئی نمائندے کشمیر کی قرارداد پر عمل کرانے کے لیے بھارت اور پاکستان روانہ کیے مگر بھارت کشمیر میں رائے شماری کرانے پر آمادہ نہ ہوا۔ 1962ء میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع شروع ہوگیا۔ یہ ایک تاریخی اور سنہری موقع تھا کہ پاکستان فوجی طاقت استعمال کرکے کشمیر کا مسئلہ حل کرالیتا مگر جنرل ایوب خان نے امریکہ کے دبائو پر یہ موقع ضائع کردیا۔
1965ء میں جنرل ایوب خان نے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی سفارش پر کشمیر کے مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی۔ پاکستان کی افواج نے سری نگر کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ بھارت نے غیر متوقع طور پر لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کردیا۔ دونوں ملکوں نے عالمی طاقتوں کے دبائو پر تاشقند معاہدہ کرلیا اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔ 1971ء میں اندرا گاندھی نے فوج کشی کرکے پاکستان کو دولخت کردیا۔ پاک بھارت جنگ کے بعد اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان شملہ معاہدہ طے پایا جس کے مطابق فیصلہ ہوا کہ کشمیر کا فیصلہ دو طرفہ بنیادوں پر مذاکرات سے کیا جائیگا۔ کشمیر کی سیز فائر لائین کو لائین آف کنٹرول قراردیا گیا۔ فروری 1999ء میں میاں نواز شریف کی دعوت پر بھارت کے وزیراعظم واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد کشمیر کے حل کے امکانات پیدا ہوئے۔1999ء کے وسط میں جنرل پرویز مشرف نے کارگل آپریشن کرکے بھارت کے اہم سٹریٹجک علاقوں پر فوجی قبضہ کرلیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت بن چکے تھے۔ امریکہ نے پاکستان پر شدید دبائو ڈال کر پاکستان کو کارگل سے فوجیں واپس لانے پر مجبور کردیا۔ فوجی حل ایک بار پھر ناکام ہوگیا اور مذاکرات سے تنازع کے حل کا موقع ضائع ہوگیا۔ مجاہدین نے کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی۔ پانچ لاکھ بھارتی فوج نے ان کوششوں کو کچل دیا۔ ہزاروں کشمیری شہید ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر آزادی کی جدوجہد تاحال جاری ہے۔ پاکستان کی عسکری اور سیاسی اشرافیہ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کشمیر کو فوجی طاقت سے آزاد نہیں کرایا جاسکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر اور دیگر تنازعات کے سلسلے میں گاہے گاہے مذاکرات ہوتے رہے مگر نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔ بھارت کے نہرو سے لے کر موجودہ وزیراعظم نریندر مودی تک ہندو ذہن تبدیل نہیںہوا اور نہ ہی تبدیل ہوگا۔ مودی انتہا ء پسند لیڈر ہیں وہ اپنی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ نریندر مودی مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں جس کا عملی ثبوت انہوں نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں دیا۔ مودی پاکستان دشمنی کی لہر پر سوار ہو کر بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پوری کوشش کرینگے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا اور اندرونی طور پر غیر مستحکم کیا جائے۔ بھارت کا مقابلہ کرنے کیلئے لازم ہے کہ پاکستان اندرونی مسائل حل کرے۔ گورنینس کو معیاری بنائے اور عالمی سطح پر سفارت کاری کو بہتر بنائے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ عالمی دبائو ڈال کر ہی حل کیا جاسکے گا۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کے مشکلات پیدا کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے اور پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان وزارت خارجہ کی ذمے داریاں نبھانے کے لیے پوری توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ سفارتکاری کے ماہر سرتاج عزیز کو اگر فل ٹائم وزیرخارجہ بنادیا جائے تو سفارت کاری کو معیاری بنایا جاسکتا ہے۔ مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد پاک بھارت کشیدگی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ بھارت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزی کے باوجود وزیراعظم پاکستان کا جنرل اسمبلی سے خطاب مثبت اور تعمیری تھا۔ انہوں نے کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کھل کر بیان کیا البتہ امن اور دوستی کو دونوں ملکوں کے عوام کے روشن مستقبل کیلئے لازمی قراردیا۔ وزیراعظم پاکستان کے چار نکاتی امن فارمولے کو پاکستان، کشمیر اور عالمی سطح پر سراہا گیا۔نمبر (1)پاکستان اور بھارت 2003 کی مفاہمت کیمطابق سیز فائر کا احترام کریں۔ نمبر (2)دونوں ملک کسی بھی صورت میں طاقت استعمال نہ کریں۔ نمبر (3)کشمیر سے فوجیں نکالنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ نمبر (4)سیاچین سے بھی غیر مشروط طور پر فوجیں واپس بلا لی جائیں۔ بھارت کے رہنمائوں نے اپنی روایتی ذہنیت کے مطابق وزیراعظم کے خطاب پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے اپنے جنرل اسمبلی خطاب میں وزیراعظم نواز شریف کی امن تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی تجویز ہے، دہشتگردی چھوڑیں مذاکرات کریں۔ سشما سوراج طرف سے نواز شریف کی تجاویز یکسر مسترد کرنے کامطلب ہے کہ بھارت دھمکیوں اورطاقت کااستعمال جاری رکھے گا اور کنٹرول لائن پر سیز فائر کا احترام بھی نہیں کریگا۔پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے بھارت کے پاکستان میں مداخلت اور دہشتگروں کی پشت پناہی کے ثبوت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو دے دیئے ہیں۔ بہترین سفارتکاری کے ذریعے پاکستان سشما سوراج کی ہٹ دھرمی عالمی برادری پر واضح اورثبوتوں کیمطابق عالمی رائے عامہ ہموار کرے تو مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔