• news

پاکستانی سرحد کے قریب افغان صوبے ننگرہار میں داعش کی سرگرمیاں تیز ہو گئیں

پشاور (بی بی سی) پاکستان کی سرحد سے متصل افغانستان کے صوبے ننگرہار میں خود کو دولت اسلامیہ کہنے والی تنظیم کی کارروائیوں میں گذشتہ کچھ عرصہ سے تیزی آ رہی ہے۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ بعض افغان طالبان تنظیمیں بھی دولتِ اسلامیہ کے مقابلے میں خاموشی اختیار کر کے ان کے لئے علاقہ چھوڑ رہی ہیں۔ افغانستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پچھلے چند ماہ سے دولت اسلامیہ کے جنگجو افغان صوبے ننگرہار کے پاک افغان سرحدی اور پہاڑی اضلاع اچین، نازیان، دیہ بالا، پچیر آگام، شنواری، سپین غر او بٹی کوٹ میں اپنی کارروائیوں میں تیزی لا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے اس پار افغان علاقوں میں اب دولت اسلامیہ کے لیے بظاہر کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ ایک افغان صحافی ان کے مطابق دولت اسلامیہ کی کارروائیوں کی وجہ سے کئی علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے اور زیادہ تر لوگ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد پہنچ رہے ہیں جہاں سے بعض خاندان پاکستان کی طرف بھی منتقل ہوئے ہیں۔ جلال آباد کے مکینوں کا کہنا ہے کہ جس طرح دولتِ اسلامیہ کے جنگجو ظالمانہ طریقے سے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں اس سے عام لوگوں میں انتہائی خوف اور دہشت کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی طرح افغانستان بھی ابتدائی دنوں میں دولتِ اسلامیہ کی وجود سے انکار کرتا رہا ہے تاہم اب افغان حکومت بھی یہ تسلیم کر چکی ہے کہ شدت پسند تنظیم کا اثر و رسوخ دو صوبوں ننگرہار اور ہلمند میں موجود ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ دولت اسلامیہ کے جنگجو طورخم جلال آباد ہائی وے کے قریب بھی اپنا رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ یہ شاہراہ پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے ملی ہوئی ہے اور پاکستان سے افغانستان جانے والا تمام سامان بھی اسی شاہراہ سے جاتا ہے۔ آج کل اس شاہراہ کی مرمت اور کشادگی کا کام بھی جاری ہے جو پاکستان کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔ ادھر پاکستان کے سرحد سے محلق افغان صوبوں میں سرگرم افغان طالبان کی ایک تنظیم ’تورہ بورہ جہادی فرنٹ‘ کے سربراہ اور سابق مجاہدین کمانڈر مولوی یونس خالص کے صاحبزادے مولوی انوار الحق مجاہد نے اپنا ’جہادی محاذ‘ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بہت جلد ایک نئی شکل میں ’جہادی ‘ سرگرمیوں کا آغاز کریں گے۔ اس تنظیم کا اثر و رسوخ ان افغان علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں آج کل دولت اسلامیہ کے جنگجو سرگرم ہیں۔ تاہم ملا عمر کی وفات کے بعد جب ملا محمد منصور امارت اسلامیہ کے سربراہ چنے گئے تو تورہ بورہ محاذ کے سربراہ مولوی انوار الحق نے اس کی مخالفت کی۔ بعض افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ تورہ بورہ جہادی محاذ نے دولت اسلامیہ کے لیے افغانستان میں میدان کھلا چھوڑ دیا ہے یا ایسے سمجھ لیں کہ جیسا ان کو اس علاقے سے نکال دیا گیا ہو۔

ای پیپر-دی نیشن