روایتاً کہا جاتا ہے ایٹمی بٹن دبا دونگا، حقیقت میں ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی: بی بی سی
لندن (بی بی سی) لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کہتے ہیں کہ وہ ایٹمی بٹن نہیں دبائیں گے لیکن بی بی سی کے صحافی جسٹن پارکنسن سوال کرتے ہیں کہ کیا واقعی کوئی ایسا بٹن موجود ہے؟ ایسا لگتاہے اوباما، پیوٹن، اولاند، کیمرون اور دوسرے تمام ایک بٹن کے ساتھ ہی بیٹھے ہیں جسے دبانے سے انکے ایٹمی ہتھیار حرکت میں آجائیں گے۔ بی بی سی کے پروگرام ’ٹودے‘ میں لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن سے سوال کیا گیا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو کیا کبھی اس بٹن کو دبائیں گے، تو انکا جواب تھا ’نہیں۔‘ لیکن انہیں اس بٹن کے بارے میں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ ایسا کوئی بٹن ہے ہی نہیں۔ دفاعی ماہر پال بیور کا کہنا ہے کہ ایٹمی میزائل چلانے کا حتمی فیصلہ وزیر اعظم (یا اسکی غیر موجودگی میں نامزد کردہ نائب) کا ہی ہوتا ہے، اسکو تکمیل تک پہنچنے کے لیے مختلف مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم فیصلہ کرتا ہے، لیکن اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے دوران مختلف مراحل پر اٹارنی جنرل اور جوائنٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ایسا کوئی تباہ کن بٹن موجود ہے لیکن ایسا صرف روایتاً کہاجاتا ہے کیونکہ اس مشینی دور میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہر چیز ایک بٹن دبانے سے ہوجائیگی۔