ایف بی آر اور آڈٹ حکام کے اعدادوشمار میں اختلاف پر پبلک اکائونٹس کمیٹی برہم
اسلام آباد(خبر نگار خصو صی )قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کہا ہے کہ اربوں روپے بیرون ملک جارہے ہیں اور حکام خاموش تما شائی بنے ہو ئے ہیں۔ کمیٹی کو بتا یا گیا کہ ماڈل ایان علی سے ضبط شدہ رقم بینک میں جمع کروا دی گئی، عارف علوی نے کہا کہ بیرون ملک رقم لیکر جانے کے حوالے سے سخت قانون بنانا چاہیے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا ، اجلاس میں آڈٹ حکام کی جانب سے ایف بی آر کے مالی سال 2010-11ء کے آڈٹ اعتراضات پیش کیے گئے۔ آڈٹ رپورٹ میں 1378 ملین روپے کے چیک کیش نہ ہونے کا انکشاف ہوا جس میں سے صرف 133 ملین روپے وصول کیے گئے۔ چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ کے اعدادوشمار اور آڈٹ حکام کے اعدادوشمار میں مماثلت ہی نہیں پائی گئی، جس پر چیئرمین سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور برہمی کا اظہار کیا۔ آڈٹ حکام کی جانب سے کھلا چیلنج دیا گیا کہ ہمارے اعداد و شمار بالکل درست ہیں جس پر ممبر کمیٹی عارف علوی نے کہا کہ بہت سے آڈٹ اعتراضات میں یکسانیت نہیں پائی جاتی، اربوں روپے کی وصولی کے باقی ہونے پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا۔ گاڑیوں کی سپلائی کے اعتراض پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آڈٹ حکام گھر سے تو آڈٹ اعتراض بنا کر نہیں لاتے، ظاہر سی بات ہے کہ محکمہ کے اندر سے آڈٹ رپورٹ بنتی ہے، کمیٹی نے سمگل شدہ گاڑیوں کے حوالے سے تمام تفصیلات طلب کرلی لیں ۔ کمیٹی کے اجلاس میں 50 ہزار سمگل شدہ گاڑیوں کو کلیئر کرنے کا بھی انکشاف ہوا۔ کمیٹی ممبر محمود خان اچکزئی نے 1322 ملین روپے کی وصولی نہ ہونے پر کہا کہ ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ہے؟ جس پر آڈٹ حکام نے کہا کہ جعلی ری فارم کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان ہوا ہے، ہمیں تو معلومات انہی کے محکمہ سے ملی ہیں جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہمارے محکمہ نے ہی سب سے ری فارم کے جعلی ہونے کا انکشاف کیا ہے اور ای این ڈی کی سب سے زیادہ کارروائی ایف بی آر میں ہوئی ہے، کئی افسران کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے اور گریڈ 21 کے آفیسر کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔ بعض لوگ عدالت میں چلے گئے اور جو عدالت میں چلے جاتے ہیں تو وقت لگتا ہے اور عدالت کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے جس پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ آپ کہہ دیں عدالت کے بارے میں ہم الفاظ حذف کروا لیں گے۔ اجلاس میں آڈٹ حکام کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ سمگل اور ضبط شدہ گاڑیاں محکمہ کے اپنے لوگ استعمال کرتے ہیں جس پر چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ سمگل اور ضبط شدہ گاڑیاں نیلام کردی جاتی ہیں جس پر کمیٹی نے سستے داموں گاڑیاں نیلام کرنے کے حوالے سے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ جو گاڑیاں باہر سے آتی ہیں وہ نئی ہوتی ہیں سکریپ نہیں ہوتی پھر اتنے سستے داموں کیوں نیلام کی جاتی ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان الیکٹرانک ڈیٹا ایکسچینج کے قیام کا اتفاق ہو چکا ہے اور جنوری سے یہ نظام فعال ہو جائیگا جس کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے درآمدات اور برآمدات پر ٹیکس کے اعداد و شمار کا پتہ چل جائے گا۔ اجلاس کے دوران ڈی جی آڈٹ فاروق محسن نے چیئرمین ایف بی آر اور محکمہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔