علامہ احمد علی قصوری کی قصور میں پابندی
آئین پاکستان مملکت کے ہر شہری کو نقل و حمل کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ یہ ایک موٹا ساا صول ہے جس کا ہر ملک کے آئین میں احترام کیا جاتا ہے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ آئے روز بعض لوگوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کہ وہ فلاں علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اسکی اجازت بھی آئین ہی سے لی جاتی ہو گی یا یہ ماورائے ا ٓئین اقدام ہے تو پھر بھی اسے کسی طاقت کا تو تحفظ حاصل ہو گا۔
کہیں خبر شائع ہوئی کہ علامہ احمد علی قصوری کی اپنے ہی آبائی علاقے قصور میںداخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، میںنے علامہ صاحب سے فون کر کے ا سکی تصدیق اور وجہ جاننی چاہی، انہوںنے ہنس کر کہا کہ خبر تو انہوںنے بھی نہیں پڑھی مگر کسی نے ان تک یہ خبر پہنچا دی ہے ۔طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہی علامہ صاحب آج چیف منسٹر پنجاب کے ساتھ ایک میٹنگ میں شریک ہوں گے جس میں اتحاد بین المسلمین کے نازک اور سنگین موضوع پر بات چیت ہو گی۔
محرم کے دن آ رہے ہیں، اس نوع کی میٹنگز بھی کافی ہوں ، ہر سطح پر ہوں گی اور مختلف علماء پر مختلف اضلاع میں داخلوں کی پابندیوں کی خبریں بھی شائع ہوں گی۔ہر میٹنگ میں ایسے علما بہر حال شریک ہوں گے جو پابندیوں کی زد میں آتے ہیں۔
ایک ہی حکومت کے دو مختلف رویئے ہیں۔ اور یہ دونوں صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور دنوں غلط بھی ہو سکتے ہیں۔
میںنے علامہ صاحب کو خبردار کیا کہ وہ اس خبر کو مذاق میںمت لیں اور چیف منسٹرہائوس کا سوچ سمجھ کر رخ کریں، کہنے لگے، میرے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ میںبلھے شاہ کا مرید ہوں اور ایسی دھمال ڈالوں گا کہ مضبوط تریں کنگرے ہل کر رہ جائیں گے۔
علامہ صاحب کو ا س حد تک پر اعتماد اور پر عزم دیکھ کر میںنے کہا کہ آپ اپنی عزت میں فرق ڈالنے پر کیوں تلے ہیں۔یہ سن کر علامہ صاحب نے گونجدار قہقہہ لگایا اور کہا کہ آپ بڑے بھولے بادشاہ ہیں۔ یہ پابندیوں کے فیصلے ایک بار ہو جائیں اوران کے مطابق لسٹیں بن جائیں تو پھر افسر شاہی مکھی پہ مکھی مارتی ہے اور ہر سال محرم کے دنوںمیں خبریں چھپوا دیتی ہے، افسر شاہی کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اس امر کا جائزہ بھی لینے کا تردد نہیںکرتی کہ اس فہرست میں سے کتنے اصحاب اللہ کو پیارے ہو چکے۔ یہ سن کر مجھے یادا ٓیا کہ علامہ احسان الہی ظہیر شہید ہو گئے مگر برسوں تک ان کے سیالکوٹ میں داخلے پرپابندی کی خبر اہتمام سے جاری ہو تی تھی ا ور اخبارات بھی ا سے طمطراق سے چھاپ دیتے تھے۔
ہر تھانے میں بستہ ب کے بد معاشوں کی بھی ایک فہرست بنتی ہے ، حکومت جب کبھی سختی پر اترآتی ہے تو پولیس پھرتی دکھاتی ہے ا ور بستہ ب کی فہرست کو جھاڑ پونچھ کر علاقے کے سارے بد معاش پکڑ کر حوالات میں بند کر دیتی ہے۔اور اوپر رپورٹ چلی جاتی ہے۔
یہ کیسا نظام ہے کہ کسی عالم دین پر ایک بار پابندی لگانے کا فیصلہ ہو گیا تو وہ ہمیشہ اس پابندی کی زد میں آ جاتا ہے، چاہے وہ اللہ ہی کو کیوں پیارا نہ ہو گیا ہو۔افسر شاہی کے نظام میںکوئی ایسا اصول نہیں کہ ان فہرستوں پر نظر ثانی کی جاتی رہے۔ ویسے کیا پتہ کونسا عالم کب حکومت کی گڈ بکس میں شامل ہو جائے مگر وہ پولیس کے بستہ ب سے خارج نہیں ہو سکتا چاہے ٹی وی پر حکومت وقت کی حمائت میں روز پیٹ پھلا کر چنگھاڑتا رہے۔
مکھی پر مکھی مارنے کے فن کی انتہا یہ ہے کہ سندھ پویس نے گمشدگی کے ایسے اشتھارات شائع کروا دیئے ہیں جن میں صاف لکھا گیا ہے کہ فلاں صاحب کو فلاں وقت فلاں جگہ سے رینجرز اٹھا کر لے گئے تھے جس کا تاحال کچھ پتہ نہیں ، کسی کو خبر ہو تو تھانہ ہذا کے منشی کو اطلاع کرے۔ اب اس نوع کے پرچے درج کرنے والے کو اچھی طرح علم ہے کہ رینجرز کو نوے روز کے لئے مجرموں کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہے، چلئے کسی ان پڑھ تھانہ محرر نے پرچہ تو درج کر لیا مگر جو اشتھارات شائع ہوئے ان پر تو اعلی پولیس افسر کے دستخط ثبت ہیں۔کیا یہ سب مکھی پہ مکھی مارنے کے مترادف ہے یا انارکی ہے۔
مشرقی پاکستان میں اکہتر میں شورش کا عالم تھا، پولیس بھی اسی صوبے کی تھی اور میڈیا بھی پاکستان کے خون کا پیاسا تھا مگر نہ اس نوع کے کہیں پرچے درج ہوئے ، نہ کسی اخبار نے ایساکوئی اشتھار شائع کیا۔
علامہ ا حمد علی قصوری ضرور بابا بلھے شاہ کے مرید ہوں گے اور دھمال ڈالتے ہوں گے مگر میں نہیںجانتا کہ انہوں نے ایک ایسی ہی سرکاری میٹنگ میں علما اور مساجد پر اجتماعی پابندیوں کے خلاف جو احتجاج کیا تھا ، اس کا کیا اثر ہوا۔ہر روز بے چارے مولوی پکڑے جا رہے ہیں ۔کوئی اذان کے ساتھ چندہ مانگتا ہے تو پکڑا جاتا ہے، کوئی شاید درود شریف لمبا کردیتا ہوگا اوردھر لیا جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ کاروائی قومی ایکشن پلان کے تحت ہو رہی ہے۔مجھے نہیںمعلوم کہ جن لوگوں نے یہ پلان ڈرافٹ کیا ، ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ مملکت پاکستان میں اسلامی رنگ نمایاں نظر نہ آئے۔مسجد سے شورو غوغا الگ بات ہے اور اذان کی آواز پورے محلے تک پہنچنا الگ بات ہے اور نما زکے دروان امام صاحب کی تکبیروں کا ہر نمازی کے کان تک پہنچنا الگ بات ہے، میںنے خود کئی مسجدوں میںاس حالت میں نماز پڑھی کہ باقاعدہ سامنے دیکھنا پڑتا ہے کہ اگلی صف کے نمازی رکوع میں گئے ہیںیا سجدے میں۔عجیب بات ہے کہ میاں شہباز شریف خود تو جدید تریں ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے وڈیو کانفرنسیںکرتے ہیں اور مولوی کو اس امر کی اجازت بھی نہیںکہ باہر سڑک پر صفیں بنائے ہوئے نمازیوں تک اپنی آواز لائوڈاسپیکر کے ذریعے پہنچا سکے۔
ہم یورپ میں اس حق کے لئے لڑ رہے ہیں کہ مسجدوں سے پانچ وقت کی اذان نشر کرنے دی جائے ا ور مملکت اسلامیہ پاکستان میں لائوڈ اسپیکرپرہر طرح کی پابندیاں ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ ایکشن پلان میںجو کچھ لکھا گیا ہے، تھانہ منشی ا س سے تجاوز کر رہا ہے ا ور قومی ایکشن پلان کو متنازعہ بنا رہا ہے۔
جس دور میں بادشاہی مسجد بنی ، اس وقت کے ٹبی بازارکی کسی رہائشی خاتون کو یہ پرچہ درج کرانے کی سوچ کیوں نہ آئی کہ مسجد کے مینارا س حد تک بلند کر دیئے گئے ہیں کہ اس کے گھر کی پردہ داری میں خلل واقع ہوتا ہے۔
پاکستان اول و آخر ایک اسلامی مملکت ہے ، ورنہ یہ مملکت نہیں ہے،اور مسجد ایک ایسی علامت ہے جو دور سے اس کے ا سلامی ہونے کا پتہ دیتی ہے، پینسٹھ میں میرے استاد محترم قیوم نظر نے نغمہ لکھا تھا کہ مسجدوں کے شہر ڈھاکہ زندہ باد!
ہم سے پہلے یہ تجربہ ترکی کر چکا ہے۔ وہ نہ تیتر رہا، نہ بٹیر۔ اسلامی ملک وہ نہیں کہلانا چاہتاا ور یورپ والے اسے گھاس نہیں ڈالتے۔ پاکستان کو اس حشر سے کیوں دو چار کیا جارہا ہے۔
ہم نے مسجدوں کو گونگا بنا دیا ہے۔لائوڈ اسپیکر بند نہیں کئے ، مسجدوں کی زبان کاٹ دی ہے ، قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی صدا بند ہو گئی ہے۔
میں نچلی سطح اور انتہائی نچلی سطح کی سوچ کی مالک افسر شاہی کی پھرتیوں پر انگشت بدنداں ہوں کہ قومی ایکشن پلان کی روح تو یہ نہیں ہے۔