• news
  • image

حلقہ 122 کا خفیہ ہتھیار اور کالا باغ ڈیم

چودھری سرور کے ساتھ بیٹھے ہوئے خیبر پی کے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ ہم کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے چودھری سرور نے میزبان کی حیثیت سے خاموشی اختیار کی مگر وہ کالا باغ ڈیم کے حق میں ہیں۔ بہت کھلے دل و دماغ والے خوش نصیب امیدوار حلقہ 122 عبدالعلیم خان کی حمایت میں پرویز خٹک لاہور آئے ہیں۔ وہ بھی کالا باغ ڈیم کے حامی ہوں گے۔ لاہور والے تو کالا باغ ڈیم کے لیے عنقریب میدان میں نکلیں گے۔ میں نے وہاں کہا کہ پرویز خٹک کو اس طرح کالا باغ ڈیم کے خلاف بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ وہ دم بخود ہوئے اور پھر تمام صحافیوں نے اور سینئر صحافی ضیاء شاہد نے بھرپور آواز میں کالا باغ کے حق میں بات کی۔ رحمت علی رازی بھی خوب بولے۔ پرویز خٹک کے ساتھ تحریک انصاف کے دیگر لوگ نعیم الحق، ڈاکٹر یاسمین راشد اور عندلیب عباس بھی بولتی ہیں۔ مگر وہ بلبل پاکستان سابق ایم پی اے دانشور اور ادیب بشریٰ رحمان سے ملیں اور ان سے کچھ سیکھیں۔
میں یہ کالم حلقہ 122 کے حوالے سے لکھ رہا ہوں مگر مجھے پرویز خٹک کی بات بالکل پسند نہیں آئی۔ یہ انداز تو اسفند یار ولی کا بھی نہیں ہے۔ عمران خان تو کالا باغ ڈیم کے حق میں ہیں۔ وہ بھی کبھی کبھی سیاسی مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پرویز خٹک کبھی کے پی کے کے نگران وزیراعلیٰ واپڈا کے مشہور و ممتاز چیئرمین بہترین انجینئر شمس الملک سے ملیں۔ ٹیلی فون پر ان سے کئی بار بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا میں پٹھان ہوں میں پٹھانوں کے حقوق کا کس طرح مخالف ہو سکتا ہوں۔ کالا باغ ڈیم سے نوشہرہ یا کسی دوسرے شہر کو ذرا بھر نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس کا فائدہ سندھ اور کے پی کے کو زیادہ ہو گا۔ مگر خٹک صاحب نے سیلاب میں ڈوبنے والے شہروں کے بہانے سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں مضحکہ خیز بات کی۔ کالا باغ ڈیم سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقے کی حفاظت کی ضمانت ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس شخص کو پہلے کی پارٹیوں کا سابق وزیر ہونے کے ناطے سے اور ایچی سن کالج میں عمران کا ساتھی ہونے کی وجہ سے وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے جو کسی طرف سے وزیراعلیٰ نہیں لگتا۔
خیبر پختون خواہ میں کچھ نہ کچھ اچھا ہوا ہے مگر اسے ’’سب اچھا‘‘ ماننے کے لیے پارٹی میں ہونا ضروری ہے۔ وہاں عبدالعلیم خان جیسے کشادہ دل اور جی بھر کے خرچ کرنے والے کسی آدمی کو وزیراعلیٰ بنایا جاتا۔ عمران خان نے پہلے عبدالعلیم خان کو ٹکٹ نہ دیا تھا تو اس نے برا نہیں منایا اور پہلے سے زیادہ وفاداری کا پیکر بن گیا۔ بے تحاشا روپیہ اس نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے دیا جو اس کے فلاحی مزاج کا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے گڑھی شاہو میں ایک ہسپتال بنوایا ہے۔ جب وہ یہاں سے ایم پی اے تھے اور پھر وزیر بھی بنے اس ہسپتال کو چلنے دیا گیا تو یہ ایک اچھا ہسپتال ہو گا۔ یہاں غریبوں اور مستحق لوگوں کا بھلا ہو گا۔ آنکھوں کا ایک ہسپتال یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار ایاز صادق نے بھی بنوایا ہے مگر لوگ کہتے ہیں کہ یہاں سے تین بار منتخب ہونے والے آدمی نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ بلکہ بہت لوگ خفا ہیں کہ انہوں نے ہمیں پوچھا تک نہیں۔ وہ قومی اسمبلی کے سپیکر تھے تو اپنے ووٹرز کی اسمبلی میں بھی آ جاتے؟ اسمبلی میں سرکاری ممبران اسمبلی اور وزیر شذیر بلکہ وزیراعظم بھی نہیں آئے تو شور مچانے والوں کا ساتھ سپیکر بھی دیتے تھے مگر جن لوگوں نے انہیں اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔ ان کا کوئی حق نہیں ہے؟ ایاز صادق نوبل آدمی ہیں مگر اس کا فائدہ ان کو بھی ہوا جو انہیں نوبل کہتے ہیں۔ ایک بات لوگوں کی بے قراری میں چھپی ہوئی ہے کہ اتنے عرصے سے قومی اسمبلی میں سپیکر کی سیٹ خالی کیوں رکھی گئی ہے۔ اگر ایاز صادق نہ جیت سکے تو پھر میری یہ تجویز ہے کہ عبدالعلیم خان کو سپیکر بنا دیا جائے۔ اس سے اسمبلی کو فائدہ ہو گا۔ جن کاموں کے لیے سرکاری فنڈ نہیں دئیے جاتے وہ عبدالعلیم خان اپنی جیب سے دے دیں گے۔ اس حلقے کے لیے ٹکٹ کی بات چودھری سرور کے لیے بھی تھی مگر وہ ان باتوں سے بے نیاز ہیں۔ انہوں نے عبدالعلیم کے لیے بہت کام کیا ہے۔
ایک خوب بات عمران خان نے کی ہے۔ عبدالعلیم خان میرا خفیہ ہتھیار ہے۔ اس کے استعمال کا موقع اب آیا ہے۔ کہتے ہیں کہ لڑائی کے دوران ہتھیار ظاہر نہیں کرنا چاہئیں ورنہ دشمن اس کا ’’توڑ‘‘ (علاج) تلاش کر لیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی جہانگیر ترین شیریں مزاری اور کئی دوسرے کھلے ہتھیار ہیں مگر خفیہ ہتھیار کے لئے انہوں نے صرف عبدالعلیم کا نام لیا ہے۔ خفیہ ہتھیار سب سے قیمتی ہتھیار ہوتا ہے۔ حلقہ 122 چار حلقوں میں سے بہت اہم ہے۔ جن کی بنیاد پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا ہے۔ تین حلقوں کے لیے الیکشن کمشن نے عمران کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ حلقہ 122 بہت اہم ہے کہ صرف اس حلقے کے لیے ایاز صادق نے حکم امتناعی (سٹے) لینے سے انکار کر کے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ برادرم خواجہ سعد رفیق (سٹے) پر وزیر ہیں بلکہ بہت وزیر ہیں۔ ویسے انہیں حلقہ 122 میں اصولی طور پر سرگرم نہیں ہونا چاہیے۔
وہ اپنے حلقے میں انتخاب کے لیے یہی زورشور استعمال کر سکتے تھے۔ وہ مقرر اچھے ہیں۔ خوب بولتے ہیں مگر وزیرمملکت عابد شیر علی کو انتخابی سرکس میں لانے کے لیے کس کی سفارش تھی؟ پتہ نہیں چلتا کہ وہ ایاز صادق کی حمایت میں آئے ہیں یا مخالفت میں آئے ہیں کیونکہ کئی مسلم لیگی لوگ نہیں چاہتے کہ ایاز صادق کامیاب ہوں۔ یہ صورتحال عبدالعلیم خان کے لیے بھی تحریک انصاف میں ہے۔ آج کل حلقہ 122 کے ووٹرز پر سارے پنجاب کی نظریں ہیں۔ یہ بہت اہمیت کی بات ہے کہ یہاں دونوں پارٹیاں تن من دھن سے یکسو ہیں۔ پیسہ بہت لگایا جا رہا ہے۔ عمران خان، ریحام خان، چودھری سرور اور خاص طور پر میاں اسلم اقبال بہت متحرک ہیں۔ کہتے ہیں کہ عمران جو قومی سطح کا لیڈر ہے حلقہ 122 میں معمولی دفاتر کیلئے فیتہ کاٹتا پھرتا ہے۔ یہ تو عبدالعلیم خان کیلئے ایک کریڈٹ ہے کہ جب عمران خود یہاں امیدوار تھے تو انہوں نے اتنی دلچسپی نہ لی تھیی۔ تب پورا پاکستان اس کیلئے حلقہ انتخاب تھا۔ اب صرف ایک حلقہ انتخاب پورے پاکستان کی توجہ حاصل کر چکا ہے۔
ایاز صادق کیلئے حمزہ شہباز نے پوری انتخابی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔ وہ بہت اعتماد اور حوصلے سے انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں ورنہ عابد شیر علی نے تو اپنی اچھل کود سے ایک مزاحیہ انتخابی کردار سے لوگوں کو روشناس کرایا ہے۔ اس کیلئے کسی ٹی وی چینل پر بھی یہ مظاہرہ کرنے کا پروگرام دیا جا سکتا ہے۔ ان کی اس کارکردگی کو تمام چینلز نے دکھایا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ سارے پاکستان کیلئے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ حلقہ 122 سارے پاکستان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ آخر میں ایک جملہ توفیق بٹ کا جو اس نے عمران خان سے کہا کہ ایک آدمی سندھ سے بھی عبدالعلیم خان، چودھری سرور اور میاں اسلم اقبال جیسا تلاش کریں۔ کے پی کے میں بھی ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن