پنجاب اسمبلی : کسانوں کے مسائل پر رانا ثناءاپوزیشن لیڈر میں جھڑپ‘ ایک دوسرے پر الزامات
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار+ کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں کسانوں کے مسائل پر وزیر قانون اور اپوزیشن لیڈر کی جھڑپ ہو گئی، دیگر ارکان بھی کود پڑے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اجلاس میں کسانوں کے مسائل پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں تلخ کلامی ہوئی اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، حکومتی رکن شیخ علاﺅالدین کا کہنا تھا کسانوں کو پچھلے سال گندم کی مناسب قیمت نہیں ملی۔ اس پر میاں محمودالرشید نے کہا گزشتہ سات سال سے حکومت نے کسانوں کے مسائل حل نہیں کئے۔ کسان حکومت کو بددعائیں دیتے ہیں۔ وزیراعظم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ آلو کی فی ایکڑ پیداوار پر اخراجات کتنے آتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کے ریمارکس پر وزیر قانون کا کہنا تھا اپوزیشن سیاسی استحکام نہیں آنے دیتی۔ انہیں ہلا گلا اور کنٹینر سیاست سے فرصت نہیں۔ رپورٹرز کے مطابق رانا ثناءنے کہا پی ٹی آئی ہلہ گلہ اور کنٹینر سیاست سے عدم استحکام پیدا کر کے ملکی ترقی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتی ہے، انہیں معلوم ہونا چاہیے اب عوام ان کا چہرہ جان چکے ہیں، پی ٹی آئی والے حقائق کو جانے بغیر ہی کسانوں کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں، امید ہے عدالت کسان پیکج کے حوالے سے ہمارے موقف کو تسلیم کرےگی جبکہ حکومت کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا فلور ملوں کی جانب سے آٹے کی قیمت میں کیا جانے والا اضافہ واپس کرا دیا ہے، صوبہ بھر میں 20کلو آٹے کا تھیلہ سرکاری نرخ کے مطابق 750روپے میں فروخت ہورہا ہے اور گندم کی آئندہ فصل آنے تک یہی قیمت بر قرار رہے گی، پنجاب فوڈ اتھارٹی لاہور کا دائرہ کار بڑھا کر پورے پنجاب تک کردیا گیا ہے اب ہر ضلع میں فوڈ کمیٹی اور ڈویژن کی سطح پر ٹاسک فورس تشکیل دے دی گئی ہے۔ قائد حزب اختلاف محمود الرشید کے نقطہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا بین الاقوامی سطح پر گندم کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے ملک میں گندم کی قیمت کم ہونے کا خطرہ تھا لیکن حکومت نے بروقت اقدام کرکے گندم کی قیمت کو 1250 روپے سے کم نہیں ہونے دیا۔ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ گندم ایک ہزار روپے سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوئی۔ انہوں نے کہا وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے کسانوں کو دیا جائے والا 340ارب روپے کا پیکیج چھوٹے کسانوں کے لئے مشکل وقت میں ریلیف تھا لیکن ہلہ گلہ اور کنٹینر کی سیاست کرنے والوں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور کسانوں کے مسائل سے لاعلم ہلہ گلہ والوں نے الیکشن کمشن کے ذریعے سے اسے سیاسی رشوت قرار دے کر اس پر عملدرآمد رکوا دیا۔ ہلہ گلہ کی سیاست کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ کسانوں کے مسائل کیا ہےں۔ ایک طرف کسانوں کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف کسانوں کو معاشی طور پر تباہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا اپوزیشن خدا کا خوف کرے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ملکی ترقی کا راستہ نہ روکے۔ قبل ازیں محمود الرشید نے بات کرتے ہوئے کہا موجودہ حکمران گزشتہ ساڑھے سات سال سے اقتدار میں ہیں انہیں اب معلوم ہوا ہے کسانوں کے مسائل بھی ہیں۔ انکے دور میں کسان تباہ ہو گیا اور خود کشیاں کررہا ہے، اپوزیشن کی طرف سے جب کسان کنونشنز کرائے گئے تو حکومت کی آنکھ کھلی کہ ان کے بھی مسائل ہیں اور انہیں بھی پیکیج دینا ہے۔ حکومت کی کسان کش پالیسیاں ملک میں زرعی پیداوار کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری خوراک چوہدری اسد اللہ نے سوالات کے جوابات دئیے۔ تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر نوشین حامد کے سوال کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری نے کہا فلور ملوں کی طرف سے آٹے کی قیمت میں جو اضافہ کیا گیا تھا وہ پنجاب حکومت نے فوری واپس کر ادیا ہے، اب صوبے بھر میں آٹا پرانے کے نرخوں کے مطابق سیل کیا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عارف عباسی نے کہا جو سیکرٹری خوراک کی طرف سے پرچی آئی ہے وہ ایوان کو گمراہ کرنے کےلئے بھیجی گئی ہے، غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے۔ ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے بتایا پورے صوبے میں ملاوٹ شدہ اور ناقص اشیائے خوردنوش فروخت کرنے والوں کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے اور پنجاب فوڈ اتھارٹی احسن طریقے سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ شیخ علاﺅ الدین نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہا صوبے میں ایسی موبائل لیباٹریز بنائی جائیں جو دودھ کے معیار کو چیک کرسکیں، جن کمپنیوں کے دودھ کو فیل کیا گیا تھا اب پھر ان کا دودھ مارکیٹ میں آرہا ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری نے کہا جتنے بھی نمونے پاس کیے گئے ہیں ان کو برطانوی لیباٹری نے چیک کیا ہے پھر یہ دودھ مارکیٹ میں آیا ہے۔ قبل ازیں پی ٹی آئی کے رکن عارف عباسی نے وزراءکی عدم موجودگی پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ایک روز قبل اہم قانون سازی ہوئی لیکن اس موقع پر بھی وزراءنہ ہونے کے برابر تھے جو افسوس کی بات ہے۔ ایجنڈا مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دیاگیا۔ بحث کے دوران ایوان میں دو طرفہ نعرہ بازی کی گئی اور دونوں جماعتوں کے قائدین کے بارے میں بھی کچھ الفاظ استعمال کئے گئے جو سپیکر نے کارروائی سے حذف کرادیے۔
پنجاب اسمبلی