• news
  • image

غدار کون؟

لاہور کے حلقہ122 کے ضمنی انتخابات نے سیاست کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت دکھا دیا۔ زبان درازی آخری حد تک چلی گئی، نوجوان نسل نے سیاست کی کتاب کا جدید ایڈیشن پڑھا تو ملکی سیاست کی سمجھ آ گئی کہ اس کے اجزائے ترکیبی میں سچ کتنا اور جھوٹ کتنا ہے؟ حب الوطنی کتنی ہے اور منافقت کتنی؟ قابل تقلید کون ہے اور کس سے منہ پھیر کر چلنا چاہیے؟ الیکشن جیتنے کی بے تابی کیونکر تھی؟ ضمنی انتخابات کی ساری مہم نے قوم کو کیا پیغام دیا؟ کس کس کا اصل چہرہ سامنے آیا؟ پرویز رشید نے کہا عمران خان چور اور غدار ہیں۔ عمران خان نے کہا شریف برادران اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ کہا گیا عمران خان نے یہودی، ہندو لابی سے فنڈز لئے جبکہ شریف برادران نے کاروبار کیلئے راہداری کو پنجاب سے جوڑا۔ الطاف حسین مفرور قرار دیئے گئے ساتھ ہی ایم کیو ایم کا استعفے واپس لینے کا اعلان ہوگیا۔ لوگ حیران ہیں کہ سیاست اس حد تک بھی گندی ہوتی ہے۔ کیا سیاسی لغت سے شائستہ الفاظ حذف کر دیئے گئے ہیں؟ ابھی تک قوم یہ نہیں جان سکی کہ غدار کون ہوتا ہے؟ سب ایک دوسرے کو چور کہنا شروع ہو جائیں تو پتہ نہیں چلتا اصل چور کون ہے؟ الزام تراشی سے دو قدم آگے بہتان بازی ہوتی ہے اس سے آگے تو پھرگالم گلوچ اور مار دھاڑ ہی رہ جاتی ہے۔ این اے 122 کا انتخاب تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کیلئے زندگی موت کا مسئلہ کیوں بنا؟ تحریک انصاف پر غیر ملکی فنڈز لینے کا الزام بہت سنگین ہے۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ نواز شریف قرآن پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کسی خلیجی ملک سے الیکشن کیلئے پیسے نہیں لئے۔ کیا یہ سچ ہے کہ وزیراعظم کا بیٹا لندن میں 700 کروڑ کے گھر میں رہتاہے؟ کیا اس طرح کے سنگین الزامات کی تحقیقات کیلئے بھی عدالتی کمیشن بنانا پڑیگا؟ یہ اس ملک کا المیہ نہیں کہ اس نے جعلی ڈگریوں گھوسٹ سکولوں، گھوسٹ پینشنرز کے حوالے سے عالمگیر شہرت حاصل کی اور پھر غداری اور کفر کے سرٹیفکیٹس بانٹنے کی یونیورسٹی قائم کردی۔ مشرف غدار، الطاف حسین غدار، عمران غدار، آخر یہ کون فیصلہ کرے گا کہ حقیقت میں غدار کون ہے؟ عمران خان کے نزدیک غدار وہ نہیں، لوٹی دولت باہر لے جانیوالے غدار ہیں۔ دنیا بھر میں تمام لغات غدار اس شخص کو قرار دیتی ہیں جو اپنے ملک سے بے وفائی کرتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں بک جائے۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کیا یہ فعل غداری کہلاتا ہے۔ مشرف کے غدار ہونے کی سمجھ ابھی تک نہیں آ سکی۔ الطاف حسین پر غداری کی مہر ثبت ہو چکی ہے۔
کسی کو بھی چور اور غدار کہہ دینے سے وہ چور اور غدار نہیں ہو جاتا۔ عمران خان چور اور غدار ہیں تو پرویز رشید کو ثابت کرنا ہوگا کہ عمران خان نے یہودی اور ہندو لابی سے فنڈز لئے۔ اگر وہ پاکستان دشمن قوتوں کے آلہ کار بنے تو ہماری خفیہ ایجنسیوں نے ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا؟ کیا ایجنسیاں بھی چوروں اور غداروں سے صرف نظر کرتی ہیں؟ مفروضوں پر مبنی باتیں بے وزن ہوتی ہیں کہ خدانخواستہ عمران خان 2013ء کا الیکشن جیت جاتے تو آج پاکستان میں طالبان کے دفاتر کھل چکے ہوتے۔ کیا عمران کے الیکشن جیتنے سے انہیں من مانی کرنے کا سرٹیفکیٹ مل جاتا اور کیا افواج پاکستان طالبان کا وجود برداشت کر لیتیں؟
کیا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ایک دوسرے کو ننگا کرنے کا نام سیاست ہے؟ کیا الزام تراشی اور زبان درازی کی سیاست سے عوامی مسائل کا حل نکل سکتا ہے؟ ہمارے سیاسی قائدین نئی نسل کو کس قسم کا طرز سیاست سکھا رہے ہیں۔ اس وقت تو بظاہر کوئی بھی سیاست دان بے داغ دکھائی نہیں دے رہا۔ کرپشن نے ملک کی مالی حالت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ نندی پور پاور پلانٹ میں 60ارب روپیہ کھایا جا چکا ہے۔ قطر گیس کی درآمد اور تقسیم کاری ایک الگ موضوع ہے۔ حکومت وقت کے سر پر نجکاری سوار ہے۔ پی آئی اے دسمبر اور سٹیل ملز کی مارچ 2016ء تک نجکاری کی جائیگی۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری بھی ہونی چاہئے۔ بجٹ خسارہ 5.3فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کا 5.4فیصد ہونے کا خدشہ ہے۔ بھاری شرح سود پر یورو بونڈ کیوں لانچ کئے گئے؟ نہ جانے کونسی دنیا پاکستان میں معاشی استحکام کا اعتراف کر رہی ہے؟ پاکستان کو سڑکوں کے ذریعے وسط ایشیائی ریاستوں سے ملانا اولین ترجیح ہے تو عوام کے لئے سستی روٹی، تعلیم اور صحت کو کم از کم ثانوی ترجیح تو ضرور ملنی چاہئے۔ عوام کو زندہ ضمیر والے سیاستدانوں کی تلاش ہے۔ پیپلز پارٹی 2013ء سے اب تک نواز شریف کی بی ٹیم بنی رہی۔ مقتدر قوتوں نے دُم پر ہاتھ رکھا، نیب کی تحقیقات سامنے آنا شروع ہوئیں کہ ڈاکٹر عاصم پی ایس او سے دو کروڑ روپے یومیہ کمیشن لیتے تھے تو پیپلز پارٹی کی غیرت جاگ گئی۔ اعتزاز احسن نے بھی زبان کھول لی اور کہا کہ نواز شریف کے ہاں محلات کہاں سے آئے؟ انہوں نے الزام لگایا کہ ایل این جی، میٹرو بس اور سولر پارک منصوبوں سے اربوں کے ٹانکے لگائے گئے۔ عوام کو انتظار ہے کہ سیاستدان کرپشن کیخلاف مہم چلائیں جس گھر میں ایک دوسرے کی عزت اچھالی جائے چور، پاکستان کا دشمن اور غدار کہا جائے اس گھر میں اتحاد و اتفاق اور امن کی فضا کیسے جنم لے سکتی ہے؟ قائد اعظم نے اتحاد کا درس دیا اور ہم انہیں کی مسلم لیگ کا پرچم تھامے گھٹیا زبان استعمال کر کے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔ ارکان سینٹ کا مطالبہ درست ہے کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے پارلیمنٹ، فوج، عدلیہ اور میڈیا سمیت سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ اعتزاز احسن نے سوال اٹھایا ہے کہ نواز شریف نے 477روپے انکم ٹیکس دیا، اربوں روپے کیسے بنا لئے؟ زرداری سے بھی پوچھا جائے کہ انہوں نے کتنا ٹیکس دیا؟ موجودہ طرز سیاست سے ملک کس طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے؟ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ملک دشمنوں سے کون نبردآزما ہے، کون اپنا خون بہا رہا ہے اور کون چُوری سے پیٹ بھر رہا ہے، پاکستان کی سالمیت اور استحکام کسے عزیز ہے؟ صرف باتوں سے حب الوطنی کا حق ادا نہیں ہوتا!
این اے 122کی انتخابی مہم میں پانی طرح پیسہ بہایا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بھرپور استعمال ہوا۔ بظاہر الیکشن کمشن نے انتخابی اخراجات کی حد مقرر کر رکھی ہے لیکن اس حد کی کون پروا کرتا ہے۔ اس وقت پنجاب کے ہر سیاسی دنگل میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ہی نمایاں پہلوان دکھائی دیتی ہے۔ جماعت اسلامی، طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک، چودھری برادران کی مسلم لیگ ق اور فقۂ جعفریہ کی مجلس وحدت المسلمین پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ مسلم لیگ ن کے اتحادیوں میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام نمایاں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹر حوصلہ ہار گئے ہیں۔ آصف زرداری نے فی الحال تو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی ہے ہر کوئی لندن بیٹھ کر ریموٹ سے سیاست کا فن نہیں جانتا۔ ہائی کورٹ نے لندن ریموٹ کے سیل نکال دیئے ہیں۔ ہم 5جولائی اور 12اکتوبر کو تاریخ پاکستان کا بدترین اور سیاہ ترین دن کہتے ہیں۔5جولائی والا آمر اللہ کو پیارا ہوا جبکہ 12اکتوبر والا آمر ٹی وی سکرین آج بھی چمکتا دمکتا چاق و چوبند دکھائی دیتا ہے۔ مقدمات کی آندھیوں سے اسکے چہرے پر جھریاں نمودار نہیں ہوئیں۔ سیاستدانوں کو 5جولائی اور 12اکتوبر کی رات آنے سے قبل اندازہ کیوں نہ ہوا کہ آندھی چلنے والی ہے۔ بادلوں کا رنگ بتا دیتا ہے کہ آندھی آ رہی ہے اور لوگ اپنی کھڑکیاں بند کر لیتے ہیں کوئی نہیں یہ کہہ سکتا کہ ایک آندھی کے بعد دوسری آندھی نہیں آئیگی یا ایک زلزلے کے بعد دوسرا زلزلہ نہیں آئیگا۔ ملک کو سیاسی استحکام سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے کیا واقعی 2018ء تک لوڈشیڈنگ ختم ہو سکے گی؟ کیا قوم کے ہر فرد کے سر سے ایک لاکھ روپے سے زیادہ قرض کا بوجھ اتر جائیگا؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن