مارک سیگل کے انکشافات!
مجھے اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میں جنرل پرویز مشرف کیلئے دل میں خصوصی نرم گوشہ نہیں رکھتا۔ یہ بحث تو ہوتی رہے گی، زیادہ قصور وار کون تھا۔ میاں صاحب اگر ’’ہائی جیکنگ ڈرامہ‘‘ نہ رچاتے تو قوم کی ہمدردیاں لامحالہ ان کے ساتھ ہونی تھیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ ایک نہ ایک کو تو جانا ہی تھا لیکن رخصت ہونے کے بھی طور طریقے ہوتے ہیں پُروقار رخصت۔جدہ میں جلاوطنی کے ایام میں سرور پیلس میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔بولے میری اتھارٹی وزیر اعظم ہائوس تک محدود ہو گئی تھی۔ ان حالات میں مجھے انتہائی قدم اٹھانا پڑا چونکہ خدشہ تھا کہ وہ حکم عدولی کریگا اس لیے مجھے اسکے بیرون ملک جانے کا انتظار کرنا پڑا۔ عرض کیا؛ کیا آپ کو III بریگیڈ کے فوجی بوٹوں کی دھمک تک سنائی نہ دی جو عملاً آپکی دہلیز پر کھڑا تھا۔ آٹھ گھنٹے تک دونوں برادران سے بہت سی باتیں ہوئیں کچھ انکشافات ہوئے جو موجودہ کالم کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ اس کالم کی غرض و غایت مارک سیگل کی شہادت کا قانونی پہلوئوں سے جائزہ لینا ہے۔
کافی عرصہ پہلے میں نے لکھا تھا کہ وطن عزیز میں بڑے آدمی کسی نہ کسی طور بچ جاتے ہیں وجہ؟ ہر جرم ثابت کرنے کیلئے موثر شہادت درکار ہوتی ہے جو اکثر دستیاب نہیں ہوتی محض شک اور شبے کی بنا پر سزا دی جا سکتی تو شہادت کو (SIFT AND WEIGH) ، کرنا تو عدالتوں کا کام ہے لیکن مقدمے کے عمومی پہلوئوں پر بحث کی جا سکتی ہے۔ گو اس وقت پرویز مشرف کے ارد گرد مقدمات کا جال بچھا ہوا ہے لیکن مندرجہ ذیل مقدمات اہم ہیں۔
-1بغاوت کا مقدمہ -2 بے نظیر قتل کیس -3 اکبر بگٹی کیس -4 لال مسجد کا مقدمہ! چونکہ مارک سیگل نے حالیہ دنوں میں پرویز مشرف کیخلاف شہادت دی ہے اس لیے ابتدا یہیں سے کرتے ہیں؛ گو شہادت کے موثر یا غیر موثر ہونے کا حتمی فیصلہ کو عدالت نے کرنا ہے لیکن چند عمومی باتیں محل نظر ہیں۔ مارک سیگل نے اپنے بیان میں کہا کہ محترمہ نے اسے امریکہ میں بتایا تھا کہ جنرل نے انہیں دھمکی دی ہے کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو اسکے ذمہ دار پرویز مشرف، پرویز الٰہی، بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور جنرل حمید گل ہونگے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسکے باوجود انہوں نے پاکستان آنے کا تہیہ کر لیا۔ سیکورٹی بھی مانگی تو دھمکی دینے والے سے! کراچی میں کار ساز کے مقام پر دھماکہ ہوا، سینکڑوں لوگ مارے گئے جس میں پولیس فورس کے جوان بھی شامل تھے باایں ہمہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے محترمہ کو بحفاظت ٹرک سے نکال کر لے گئے۔ کیا پرویز مشرف نے ’’سازش‘‘ مقامی پولیس، رینجرز وغیرہ کو اطلاع دیئے بغیر تیار کی تھی؟ انکی آمد سے قبل تحریری طور پر اطلاع دی گئی تھی کہ ان پر حملے کے قومی امکانات ہیں، یہ کیسی سازش ہے کہ ’’سرغنہ‘‘ ٹارگٹ کو پہلے سے مطلع کرتا ہے کہ وہ حملہ کریگا۔ کار ساز میں چونکہ بھگڈر مچ گئی تھی اس لیے محترمہ کو گزند پہنچانا نسبتاً آسان تھا۔ لیاقت باغ میں بھی جلسے سے قبل ان کو تحریری اطلاع دی گئی تھی۔ انکی حفاظت کیلئے سینکڑوں پولیس مین موجود تھے۔ وہاں کچھ نہ ہوا کیونکہ قاتلوں کو پتہ تھا کہ اسٹیج تک پہنچنا مشکل تھا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ وہ اپنے جوشیلے ورکرز کو دیکھ کر گاڑی کی چھت کھول کر کھڑی ہو گئیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ قاتل کی گولی یا بم پھٹنے سے شہید نہیں ہوئیں بلکہ سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیش کیمطابق چھت کی سلائیڈ بم بلاسٹ کی وجہ سے اس روز سے انکی کنپٹی کے ساتھ ٹکرائی کہ موت واقعہ ہو گئی۔ یہاں قابل غور بات مشرف کی نیت میں ہے بلکہ قاتلوں کی DETERMINATION ہے ۔ عام طور پر ایجنسیوں کے پاس خود کش بمبار نہیں ہوتے۔ بیت اللہ محسود نے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ وہ خود بھی مارا جا چکا ہے۔ قاتل بھی موقع پر مر گئے تھے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مشرف پر انہی لوگوں نے دو حملے کیے اور انکا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ کیا مشرف نے ان لوگوں سے صلح کر لی تھی؟ اس وقت نہ تو قاتل موجود ہیں، نہ ان کا سرغنہ زندہ ہے۔ کیا کوئی شخص ایسا ہے جو بیان دے کہ مشرف نے اس کو بلا کر قاتلانہ حملے کی ترغیب دی تھی۔ قانون کی نظر میں محترمہ کے خدشات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ پھر انہوں نے چار آدمیوں پر شک کیا تھا۔ باقی ماندہ لوگوں کے کیوں چالان نہیں ہوئے؟ پرویز الٰہی، اعجاز شاہ اور جنرل حمید گل کو شک کا فائدہ کس نے دیا؟ یہ مسلمہ قانونی امر ہے کہ CREDIBILITY OF A WITNESS IS INDIVISIBLE یہ نہیں ہو سکتا کہ آدھا بیان مان لیا جائے اور باقی ماندہ کو تسلیم نہ کیا جائے۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ محترمہ کو پوری سکیورٹی نہ دی گئی تھی۔ پوری سیکورٹی سے مراد کیا ہے؟ ایک سابق وزیر اعظم کی (Entitlement) کتنی ہے؟ سو آدمی، دو سو آدمی! چوہدری شجاعت، جمالی، گیلانی، اور راجہ رینٹل بھی وزیر اعظم رہے ہیں، انہیں کس قدر فورس دی گئی ہے۔ پھر سیکورٹی فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ صوبائی حکومت، ضلعی انتظامیہ یا کوئی اور ادارہ؟ کیا اس قسم کی شہادت ریکارڈ پر موجود ہے کہ مشرف نے ان سب کو یا ان میں سے کسی ایک کو منع کیا ہو۔ جب مشرف ملک سے باہر جا رہے تھے تو کس کے ایما پر انہیںگارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
مارک سیگل ایک INTRESTED WITNESS ہے جس کو وکیل بھی زرداری صاحب نے فراہم کیا ہے۔ فاروق نائیک ہو یا کھوسہ، اتفاق ہے ماڈل ایان علی کے وکیل بھی یہی لوگ ہیں۔ سیگل محترمہ کا ملازم تو نہیں تھا لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک:
(PAID LOBBYIST, HE WHO PAYS THE PIPER HAS ALSO THE RIGHT TO CALL FOR THE TUNE)
ان حالات میں مشرف کو سزا کیونکر ہو گی؟ کیا استغاثہ اس قدر لاعلم یا قانون نا آشنا ہے؟ ان کا بنیادی مقصد ملزم کو سزا دلوانا نہیں بلکہ اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانا ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان چالبازوں کو دیکھ کر عالم ارواح میں محترمہ کی روح ضرور مضطرب اور مضمحل ہوتی ہو گی جس پرویز الٰہی پر انہوں نے شک اور شبہ ظاہر کیا تھا اسے انکے خاوند محترم نے ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا تھا۔
اسی طرح اکبر بگٹی کیس میں پہلے تو اس شخص کا پتہ چلایا جائے جس نے میزائل داغا تھا۔ قصر صدارت اور غار کے درمیان کئی کڑیاں ہیں، ان کو کون ملائے گا؟ مرنے سے قبل بلوچ رہنما کی حیثیت کیا تھی؟ کیا وہ اپنی جان بچانے کیلئے غار میں چھپا تھا یا اس کے آدمی ریاست کیخلاف برسر پیکار تھے، وہ جو فوجی افسر غار میں مارے گئے، انکے قتل کے الزام میں کون پکڑا جائیگا۔ یہاں بھی مقصد مشرف کو سزا دلوانا نہیں ہے بلکہ اسے ’’ذلیل و رسوا‘‘ کرنا ہے اس حد تک مدعیان کامیاب نظر آتے ہیں۔ لال مسجد کا کیس بھی کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جو بغاوت کا مضبوط کیس ہے اس میں تو پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ معاملہ روز بروز گنجلک ہوتا جا رہا ہے۔ شریک جرم ملزمان کی تعداد سینکڑوں تک جا سکتی ہے۔ ’’باٹم لائین‘‘ یہ ہے کہ مشرف نے پاکستان واپس آنے کی جو غلطی کی ہے، اس حماقت کی انہیں کچھ نہ کچھ سزا تو ملنی چاہیے اور وہ مل رہی ہے!