• news
  • image

منگل ‘28 ؍ ذی الحج‘ 1436ھ ‘ 13 ؍ اکتوبر 2015ء

این اے 122میں سپیشل کیا ہوا؟
ہاتھوں میں مہندی لگانے اور سرخ جوڑا پہننے کے بعد تو پیا گھر سدھارنے کی جلدی ہوتی ہے لیکن کل نون اور جنون کے مقابلے میں دلہن بھی پیا گھر کی بجائے سیدھا پولنگ اسٹیشن پہنچی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہندی کے ہاتھوں پر تھوڑی سی کالک برداشت کی۔ چاندنی نام کی دلہن نے احساس ذمہ داری کی بنیاد رکھ کر لاہوریوں کو ایک سبق بھی دیا ہے کہ کھا پی کر گھروں میں لیٹنے کی بجائے اسے ذرا ہضم بھی کر لیا کریں اگر لاہوریوں نے کل نان چنے،بریانی اور حلوہ پوری ہضم کی ہوتی تو ٹرن آئوٹ زیادہ ہوتا اور پھر ہار اور جیت محض 2443 ووٹوں سے نہ ہوتی۔ لاہور کے دلہا عامر نے بھی دلہن کو لانے کی بجائے ووٹ ڈال کر کمال کیا ہے۔عامر پر دلہن کی بجائے ووٹ کی محبت غالب آ گئی تھی ، اصل میں تبدیلی تو احساس ذمہ داری بیدار ہونے کی ہے جو آ نہیں رہی بلکہ آگئی ہے۔
100 سالہ دادی اماں نواسے نواسیوں ، پوتے پوتیوں کے ہمراہ ووٹ کاسٹ کرنے پہنچیں ، جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ۔ اماں جی نے نون اور جنون کو مات دی ہے ، ایک معذور شخص نے تکلیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہیل چیئر پر ووٹ کاسٹ کیا، اس کمپین میں پیسہ چلایا جھرلو پھیرا گیا لیکن ان لوگوں کی منتیں اور ترلے دیکھ کر بڑا مزا آتا تھا جو اسلام آباد کے ٹھنڈے کمروں سے کبھی نکلے بھی نہیں تھے۔ عابد شیر علی نے گزشتہ رات بھی شیر بننے کی کوشش کی ۔ وہ دھاڑتے تو ضرور رہے لیکن رات کو جب کارکنوں نے انہیں کندھوں پر اٹھایا تو ان کی دھاڑ کی بجائے چیخیں نکل رہی تھیں، چیخیں صرف گلہ خراب ہونے کی تھیں کچھ اور مت سمجھ لیجئے ۔(ن) لیگی وزراء کا حال تو دیدنی تھا، شاعر نے ایسی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے۔
تمام عمر رہے جو نظر سے پوشیدہ
شرف نہ بخشا کسی دن غریب خانے کو
لپٹ رہے ہیں ہر اک سے وہ اب الیکشن میں
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو
اس دنگل میں پیپلزپارٹی دھول بن گئی ہے، اعتزاز احسن نے تو یوں جان چھڑائی ہے کہ سرمائے کی جنگ نہیں لڑ سکتے ویسے پی پی کے پاس بھی سرمائے کی کمی نہیں، بلاول ہائوس بنا کر دینے والے الیکشن بھی لڑ سکتے تھے لیکن مردے کو زندہ کرنا کسی سائنس کا کام نہیں۔ یہ تو صرف معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ (ن) لیگ کو رات بھر جشن منانے کی بجائے پی پی 147 میں محسن لطیف کی ناکامی کو سامنے رکھ کرآنسو بھی بہانے چاہئیں تھے، محسن لطیف کیلئے عرض ہے:۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں
اگر (ن) لیگ اس کی انکوائری کرے تو ’’کھُرا‘‘ اپنے گھر تک ہی جائے گا۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے میں لڑکیاں لڑکوں پر بازی لے گئیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر بھی گردش کررہی ہے کہ پہلے خواتین کام کاج نہ ہونے کی بنا پر گھروں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی چغلیاں کرتی تھیں پھر آہستہ آہستہ سروں میں جوئیں نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا تو خواتین وہاں وقت صرف کرنے لگیں۔ اب ایک نئی چیز انکے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اب صبح سے شام تک موبائل اور لیپ ٹاپ پر سلسلہ شروع رہتا ہے کبھی فیشن کے ڈیزائن لگائے جاتے ہیں تو کبھی سوٹوں کی نمائش، اب نوبت باایں جا رسید کہ اب سوشل میڈیا پر رشتے بھی تلاش کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مصروفِ کار لڑکوں کی تعداد 59 فیصد ہے جبکہ لڑکیوں کی تعداد 72فیصد ہے۔ ویسے لڑکیاں ہر شعبے میں لڑکوں سے سبقت لے جا رہی ہیں، تعلیم کے شعبے سے لے کر کسی بھی جگہ آپ کو خواتین زیادہ نظر آئیں گی، ہمیں اپنی نسل کو مادر پدر آزاد بنانے کی بجائے اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ پہلے اولاد کو بہت زیادہ آزادی دی جاتی ہے جب اولاد اس آزادی سے آگے گزرنے کی کوشش کرتی ہے تو والدین تب چیختے چلاتے ہیں اس لئے پلوں کے نیچے سے پانی گزرنے سے پہلے پہلے اسکے سامنے بند باندھ لینا چاہیے جب سیلاب امڈ کر کنارے پر آجائے تب باندھا ہوا بند کسی کام نہیں آتا۔ لہٰذا والدین اولاد کو ڈھیل دیں تو ان کی نگرانی بھی کیا کریں تاکہ وہ بالکل آزاد نہ ہو جائیں۔
٭…٭…٭…٭
گورنر ہائوس کراچی کا سیکرٹری اختر غوری لینڈ مافیا کا سرغنہ نکلا، ذوالفقار مرزا کو بھی ڈیل آفر کی۔
گھر کے بچوں کے دانت گننے کی ضرورت نہیں ہوتی سبھی کو علم ہوتا ہے لیکن گورنر عشرت العباد نہ جانے اس سے بے خبر کیوں رہے ۔ حالانکہ موصوف کو جتنا عرصہ گورنر ہائوس میں ہو چکا ہے اتنا عرصہ تو شاید انہوں نے اپنے گھر میں بھی نہیں گزارا ہوگا۔ چور کی داڑھی میں تنکا تو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے لیکن عشرت العباد جب سے اس عشرت کدہ میں متمکن ہوئے انہیں وہ تنکا نظر نہیں آیا اور انہوں نے اسے سینے کے ساتھ لگائے رکھا، سیکرٹری نے بھی سوچا ہوگا :۔
بھیت کنے کھولنے نے
وچو وچی کھائی جائو
اتوں رولا پائی جائو
لیکن اب جب سب کی گردن دبوچی جا رہی ہے تو پردہ نشین بھی سامنے آ گئے ہیں۔ اختر غوری کے لینڈ مافیا کا حصہ ہونے پر حیرت نہیں بلکہ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس نے کس بے باکی سے ذوالفقار مرزا کو 40فیصد حصے کی آفر کی۔ ذوالفقار مرزا پی پی پی کے دور میں جب صوبائی وزیر داخلہ تھے تو وہ گورنر سندھ سے ملنے گئے اور گورنر سندھ سے قبل سیکرٹری گورنر ہائوس سے ملاقات کی تو اس وقت اختر غوری نے انہیں دانہ ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ ایس ایس پی ملیر سے کہیں کہ وہ ڈی جی ایم ڈی اے کے غیر قانونی کاموں میں مداخلت نہ کریں اس کے عوض زمینوں کی فروخت سے آنے والی رقم کا 40فیصد حصہ آپ کو دیا جائے گا۔ ذوالفقار مرزا نے جب آنکھیں نکالیں تو وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے، اب ایسے لٹیروں کے گرد شکنجہ کَس دینا چاہیے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچا کر لوٹ مار کے باب کوہمیشہ کیلئے بند کردینا چاہیے۔
٭٭٭…………٭٭٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن