عدم برداشت سیکولر انڈیا کا داغدار چہرہ، مزید سیاہ ہو گیا
شیوسینا نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی ممبئی میں رونمائی کے پروگرام کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔پیر کی صبح شیوسینا کے کارکنوں نے کتاب کی رونمائی کیلئے ممبئی میں پروگرام منعقد کرنیوالے ادارہ ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ کے سربراہ سندھیندر کلکرنی کو انکی کار سے اتار کر انکے چہرے پر سیاہ رنگ مل دیا۔
بھارت سے فنکار، ادیب اور سیاستدان پاکستان آتے رہتے ہیں۔ انکو پاکستان میں پورا احترام دیا جاتا ہے۔ انکی بات سنی جاتی ہے۔ ان کیخلاف کبھی احتجاج نہیں ہوا۔ انڈین فلمیں پاکستانی سنیما گھروں میں چلتی ہیں۔ کیبل پر انڈین چینل دکھائے جاتے ہیں۔ بھارت سے آئے مہمانوں کیخلاف کبھی کسی تنظیم کی طرف سے احتجاج اور مظاہرے نہیں ہوئے۔ بھارت کو سیکولر انڈیا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ وہ دنیا کو اپنا شائننگ فیس دکھانا چاہتا ہے جو محض زبانی کلامی نہیں دکھایا جا سکتا۔ بھارت کو عملی طور پر ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی سیکولر انڈیا ہے۔ بھارت جتنی بڑی جمہوریت ہے اتنی ہی برداشت بھی اسکے اندر ہونی چاہیے۔ خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رونمائی ہی پر موقوف نہیں، بھارت میں پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کی بھی توہین کی جاتی ہے۔ ان کیخلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ اب پاکستانی سابق وزیر خارجہ کی کتاب کی رونمائی کی شیو سینا کی طرف سے شدید مخالفت اور میزبان کا چہرہ سیاہ کرنے کا عمل بھارت کے سیکولر داغدار چہرے پر سیاہی ملنے کے مصداق ہے۔