• news
  • image

’’تخت ِ لہور… اور مَیلی گنگا؟‘‘

پنجاب کی وزارت ِ عُلیّہ کے دو امیدواروں میں مقابلہ ہُوتا تو اُسے بجا طور پر ’’تخت ِ لہورکے لئے لڑائی ‘‘ کہا جاسکتا تھا لیکن نیوز چینلوں کے بعض ’’اہلِ عِلم ‘‘ اینکر پرسنز نے لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب کو تخت ِ لہور کے لئے لڑائی قرار دیا اور اُن کی دیکھا دیکھی چند سیاستدانوں نے بھی ۔ تحریکِ انصاف کے ہارنے والے امیدوار عبدالعلیم خان نے بھی بھولپن سے کہہ دِیا کہ ’’ ہم نے تخت ِ لہورکے چار پایوںمیں سے دو پائے نکال لئے ہیں ‘‘۔ خان صاحب نے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مسلم لیگ کا تخت ِ لہوردو پایوں پر زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا، کسی روز دھڑام سے گر پڑے گا اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے بجائے تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوجائے گی‘‘۔

تخت ِ لہورکی اصطلاح بہت پرانی ہے جو مغل بادشاہ اکبر کے دَور کے مُغلیہ سلطنت کے باغی پنجاب کے ایک ہیرو ساندل بار کے رائے عبداللہ خان بھٹی المعروف دُلّا بھٹی سے منسوب ہے۔ اکبر نے اپنی 49 سال کی حکومت میں 20 سال لاہور میں گزارے ۔ شاعروں نے دُلّا بھٹی کی بغاوت اور شجاعت پر کئی رزمیہ نظمیں لِکھی تھیں۔ ایک رزمیہ نظم ’’دُلّے دی بار‘‘ میں دُلّا بھٹی نے اعلان کیا تھا کہ …
’’ مَیں ڈھادیاں دِلّی دے
کنگریتے بھاجڑ پادیاں تخت ِ لہور‘‘
یعنی ’’ مَیں اکبر کے دارالسطنت دہلی کے مِیناروں کو گِرادوں گا اور اُس کے تخت ِ لہور میں بھگڈڑ مچا دوں گا ‘‘۔ 11مئی 2013ء کے عام انتخابات میں تخت ِ لہورکے حصول کے لئے لڑائی میں مسلم لیگ ن کو کامیابی حاصل ہُوئی تھی۔ یہ الگ بات کہ پنجاب کی ’’ جم پل ‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی جو 5 جولائی 1977ء سے نواب صادق حسین قریشی کے بعد تخت ِ لہورسے محروم چلی آ رہی تھی ، پہلے سے زیادہ سُکڑ گئی اور ووٹوں کے لحاظ سے دوسری بڑی پارٹی تحریک انصاف بھی تخت ِ لہورپر قبضہ کرنے میں ناکام رہی۔ 11 اکتوبر کے ضمنی انتخاب میں اگر عبدالعلیم خان ایاز صادق خان کو ہرا کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب بھی ہو جاتے ، تخت ِ لہورکی ایک چُول بھی نہیں ہل سکتی تھی۔
جناب عمران خان ، عبدالعلیم خان اور تحریک انصاف کے دوسرے لیڈروں نے ضمنی انتخاب میں انتخابی مہم کامیابی سے چلانے پر تحریک انصاف کے پنجاب کے آرگنائزر ( سابق گورنر پنجاب) چودھری محمد سرور کی خدمات کی تعریف کی ہے ۔ ادھر چودھری صاحب نے بھی کہا ہے کہ ’’ چند ہزار ووٹوں سے ہار ، شکست نہیں ہوتی۔ 11 اکتوبر کی فتح پر مَیں عبدالعلیم خان اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو مُبارکباد دیتا ہُوں۔ ‘‘ جِگر مراد آبادی نے بھی عِشق میں ناکامی کے بعد کہا تھا کہ…
’’ تجھے اے جِگر مبارک ، یہ شکستِ فاتحانہ!‘‘
29 جنوری کوپنجاب کی گورنر شپ کا بوجھ کندھوں سے اتار کر چودھری محمد سرور نے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تو جناب عمران خان نے انہیں ’’تنظیمی سائنسدان ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ مَیں تنظیم سازی نہیں کر سکتا۔ تنظیم سازی ایک سائنس ہے اور چودھری محمد سرور یہ ہُنر خوب جانتے ہیں ‘‘۔ پھر خبر آئی تھی کہ ’’ چودھری محمد سرور نے جناب عمران خان کومشورہ دِیا ہے کہ ’’ برطانیہ اور دوسرے یورپی ملکوں کی طرح پاکستان تحریک ِ انصاف کی بھی ایک "Shadow Cabnet" بنائی جائے ۔ اُن ملکوں میں جب حزبِ اختلاف کی کوئی جماعت عام انتخابات میں جیت جاتی ہے تو پارٹی لیڈر شیڈو کیبنٹ کے ارکان کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیتا ہے ۔لیکن جناب عمران خان تو کیا پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کا لیڈر اپنے امیدوارانِ وزارت ساتھیوں کو اقتدار میں آنے سے قبل ناراض کرنے کا "Risk"نہیں لے سکتا۔
اگرچہ جناب ایاز صادق کو مسلم لیگ ن میں سلطان محمود غزنوی کے ملک ایازؔ کی سی حیثیت حاصل نہیں ہے لیکن جناب عمران خان کی طرف سے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ایک بار پھر قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد ایاز صادق صاحب کا سیاسی قد کاٹھ بڑھ گیا ہے لیکن بعض اہل دربار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’ایاز صادق کی کامیابی سے حمزہ شہباز شریف کا سیاسی قد بڑھ گیا ہے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ تخت ِ لہور‘‘ پر رونق افروز میاں شہباز شریف کا فرزندِ ارجمند ہونے کی وجہ سے حمزہ صاحب کا سیاسی قد تو پہلے ہی بڑھا ہوا تھا ۔ مرزا غالبؔ نے کہا تھا …
’’ بھرم کُھل جائے ظالم ، تیری قامت کی درازی کا
اگر اِس طُرۂ پُر پیچ و خم کا ، پیچ و خم نکلے‘‘
’’ شہیدوں کی پارٹی ‘‘ کہلانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور اُن کے والدِ محترم ’’غازی‘‘ آصف علی زرداری کا اِس ضمنی انتخاب میں کوئی "Role" ہی نہیں تھا ۔ کسی بھی فلم یا ڈرامے میں کسی کو کیا رول مِلے؟ یا نہ مِلے؟ یہ تو ڈائریکٹر کی مرضی پرمنحصر ہے ۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنما بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ ’’ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں روپے خرچ کئے لیکن الیکشن کمیشن دیکھتا رہا۔ اعتزاز احسن صاحب! ۔ اگر الیکشن کمِشن آنکھیں بند کئے رکھتا تو بھی آپ اُس کا کیا بگاڑ لیتے؟۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے عبدالعلیم خان کو ’’ قارُون ‘‘ قرار دیتے ہُوئے کہا کہ ’’ نون نے قارُون کو ہرا دِیا‘‘۔ خادمِ اعلیٰ اپنی تقریروں میں اکثر کہا کرتے ہیں کہ ’’ اگر اشرافیہ نے اپنا رویہ نہ بدلا تو مُلک میں خونِیں انقلاب آئے گا ‘‘۔ حلقہ این اے 122 کے پر امن ضمنی انتخاب سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ خونِیں انقلاب‘‘ کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں ہے ۔ شاید اِس لئے کہ پاک فوج نے امن قائم کئے رکھا۔ ’’پاک فوج کوسلام ‘‘ کہ اُس نے ’’ جمہوریت کے تحفظ‘‘ کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی ہے ۔
وزیراعظم میاں نواز شریف بھی ’’تخت ِ لہور‘‘ کی حفاظت میں کردار ادا کرتے رہتے ہیں ۔ ضمنی انتخاب سے دو دِن پہلے شیخوپورہ (بھکھی) میں پاور پلانٹ کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب وزیراعظم نے کہا ’’پاکستان میں الٹی گنگا بہتی رہی ہے جِسے ہم نے سیدھا کردیا ہے ‘‘۔ ہندی زبان میں دریا کو ’’ ندی‘‘ کہتے ہیں ۔ گنگا ندی بھارت میں بہتی ہے ۔ ہندو قوم اسے ’’ گنگا میّا‘‘ ( ماں گنگا) بھی کہتی ہے ۔ اُس کا عقیدہ ہے کہ ’’ جو پاپی ( گُنہگار ) گنگا ندی میں اشنان ( غُسل) کرلیتا ہے اُس کے سارے پاپ ( گُناہ) دُھل جاتے ہیں ‘‘۔ ایک ہندی فلمی گیت میں ہیروئن نے وِشنو دیوتا کے اوتار بھگوان رام سے گِلہ کرتے ہُوئے کہا تھا ۔
’’رام تیری گنگا میلی ہوگئی
پاپٔیوں کے پاپ دھوتے دھوتے‘‘
جب کبھی ’’ گنگا بہنا‘‘ کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس کا مفہوم فیض عام ہوتا ہے ’’ الٹی گنگا بہنے‘‘ کا مطلب ہے خلاف دستور یا عوام کے مفاد میں کام کیا جانا ۔ کیا جناب وزیراعظم اس بات کی وضاحت کریں گے کہ آپ نے پاکستان میں بہنے والی جِس گنگا کو سیدھا کیا ہے ،وہ اگر بڑے بڑے پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے میلی ہوتی گئی تو پھر تخت ِ لہور توکیا کوئی اور تخت بھی کیسے بچے گا؟ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگ تو جمہوریت نہ بھی ہو تو جی لیتے ہیں …
’’اُن کی بلا سے بُوم رہے ، یا ہُما بسے‘‘

epaper

ای پیپر-دی نیشن