مشرف پھانسی دلوانا چاہتے تھے، نوازشریف کی مدد کیلئے صدارت نہیں چھوڑی تھی: رفیق تارڑ
اسلام آباد(آئی این پی) سابق صدر جسٹس (ر) رفیق تارڑ نے کہا ہے کہ انہوں نے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد صدارت سے استعفیٰ اس خدشے کے پیش نظر نہیں دیا تھا کہ کہیں فوجی حکومت وزیر اعظم نواز شریف کو پھانسی کی سزا نہ دلوا دے اور اس سزا کی توثیق کی فائل صدر کے پاس بھجوائی جاتی ہے تاہم اللہ کے فضل و کرم سے نوازشریف اس مشکل صورتحال سے نکلنے میںکامیاب ہوئے۔ پرویز مشرف نے پریس کانفرنس میں واضح اعلان کیا تھا کہ میں بطور صدر اپنی مدت پوری کروں گا لیکن چیف ایگزیکٹو کے ایک حکم نامہ کے تحت مجھے غیر آئینی طریقے سے ایوان صدر سے نکالا گیا اور صدر کا عہدہ چیف ایگزیکٹو نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سنبھال لیا۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں سابق صدر نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد میں نے اپنے ایک بیٹے کو وزیراعظم نواز شریف کے والد میاںشریف مرحوم کے پاس بھجوایا اور ان سے استفسار کیا کہ میرے لئے کیا حکم ہے میں ایک دن بھی اس صورت حال میں صدر نہیں رہنا چاہتا۔ 3دن کے بعد میاں شریف کا مجھے پیغام ملا آپ نے صدارت نہیں چھوڑنی جس پر میں نے صدر کے عہدے پر کام جاری رکھا۔ اس دوران میرے پریس سیکرٹری اور وزیراعظم کے موجودہ معاون خصوصی عرفان صدیقی (ن) لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کے پاس میرا یہ پیغام لے کر جاتے رہے جب بھی پارٹی مجھے کہے گی میں ایوان صدر سے چلا جائوں گا۔ جب ان سے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ہٹانے کیلئے کوئٹہ میں ججز کو پیسے دینے کا سوال کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ وہاں 3 جج تھے۔ جسٹس (ر)ناصر اسلم زاہد‘ جسٹس (ر)خلیل الرحمن خان‘ جسٹس (ر)شاہد حسن خان تھے۔ جسٹس شاہد حسن خان نے جسٹس اعجاز نثار خان کو کہا کہ اگر تارڑ صاحب کہیں گے کہ آپ اوپر جائیں کافی ہو گئی ہے ۔ ان کا نمبر اس 15واں یا 16واں تھا یہ تینوں ایماندار اور معزز جج صاحبان تھے اور ان کو پیسے دینے کے الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے یہ جھوٹ پر مبنی کہانی ہے۔جب ان تینوں کو جنرل (ر)پرویز مشرف نے ہٹانے کیلئے بات کی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ نہ کریں اور پی سی او کے تحت ججز سے دوبارہ حلف نہ لیں اس سے ملک کی بڑی بدنامی ہو گی مگر جنرل (ر) پرویز مشرف نے میری بات نہیں مانی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ایک دن جنرل پرویز مشرف آئے اور کہا کہ ملکی مفاد میں میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں خود صدر بن جائوں اس پر میں نے انہیں کہا کہ جب نوا زشریف نے تمہیں فارغ کیا تھا تو تمہیں کیسا لگا تو اس پر جنرل مشرف اور دیگر جرنیلوں کے منہ لٹک گئے۔ اصل بات یہ تھی کہ جنرل مشرف نے بھارت کے دورے پر جانا تھا اوراس نے پروٹوکول لینے کیلئے ایک آئینی صدر کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل یوسف بھی موجود تھے انہوں نے کہاکہ آپ استعفیٰ دیدیں میں نے کہاکہ میں کبھی بھی استعفیٰ نہیں دوں گا جس پر جنرل مشرف نے چیف ایگزیکٹو آرڈر جاری کر کے خود صدارت سنبھالی اور مجھے ہٹا دیا۔